عمران خان اور شہباز شریف کا آنا جانا
ایم کیو ایم نے اپنے روایتی انداز میں اپنی اتحادی تحریک انصاف کی حکومت سے سودا بازی شروع کر دی ہے ۔ ایم کیو ایم کے کنونیر خالد مقبول صدیقی یہ کہتے ہوئے کہ اب وزارت میں بیٹھنا بیکار ہے ، وزارت سے مستعفی ہو گئے ہیں۔لیکن انہوں نے حکومت سے تعاون جاری رکھاہے ۔ یہ انہیں منانے کیلئے آنے والوں کیلئے دروازے کھلے ہونے کا اعلان ہے ۔ انہیں تحریک انصاف سے اگر کوئی اصولی اختلاف ہو تو انہیں ان کا اتحادی بھی نہیں رہنا چاہئے تھا۔ وہ کام ضرور کرنا چاہتے ہیں لیکن اسی تنخواہ پر نہیں۔ وہ نئی تنخواہ اور زیادہ مراعات چاہتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ وزارت ایک اور چاہتے ہیں۔ پھر فنڈز کی فراہمی کا مطالبہ آتا ہے ۔ اس کا غالباً ’’نکاح‘‘ سے پہلے وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ اس وعدے کو وہ رات گئی بات گئی والے حساب کتاب میں لکھنے کو تیار نہیں۔ تحریک انصاف کیلئے بھی یہ وعدہ نبھانا کچھ آسان نہیں۔ اس کے بعد دہشت گردی ، قتل ، اغواء اور بھتہ خوری میں ملوث ایم کیو ایم کے کارکنوں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ ایم کیو ایم ان کی رہائی بھی چاہتی ہے ۔ عمران خان انہیں رہا کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے ۔ یہ سیکورٹی ایجنسیوں کی کلیئرنس کے بغیر ممکن نہیں۔ ایم کیو ایم اپنے پرانے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو کی واگزاری بھی چاہتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ایم کیو ایم کراچی میں اپنا پرانا تسلط واپس لانے کی خواہشمند ہے ۔ یہ تحریک انصاف اور مقتدر قوتوں دونوں کو منظور نہیں۔ اسی لئے خالد مقبول صدیقی کے استعفے کی واپسی ممکن نہیںہو رہی ۔ جب مارکیٹ میں مال کا دوسرا گاہک موجود ہوتو بیچنے والے کے نخرے بڑھ جاتے ہیں۔ بلاول بھٹو ، ایم کیو ایم کو سندھ گورنمنٹ میں حصہ دار بنانے کو تیار ہیں۔ اب پیپلز پارٹی انہیں کہاں تک اپنی حکومت میں شریک کر سکتی ہے ؟ یہ بعد کا معاملہ ہے ۔ سردست کہانی صرف اتنی ہے کہ ان کی طرف سے بہر حال ایک آفر موجود ہے ۔ پھر یہ آفر کوئی راز کی بات بھی نہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے بھی حکومت کے ساتھ چلنے یا نہ چلنے کے بارے فیصلہ کرنے کیلئے اپنی کور کمیٹی کا اجلاس بلا لیا ہے ۔ ان کے بنیادی مطالبے لا پتہ افراد کی واپسی کا تعلق براہ راست مقتدر قوتوں سے ہے ۔ اس مسئلے پر عمران خان کسی وعدہ وعید تو کیا ‘غالباً گفت و شنید کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ جی ڈی اے نے بھی حکومت کو آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں۔ ان تمام ناراض جماعتوں کی قومی اسمبلی میں تعداد 19ہے ۔ جبکہ تحریک انصاف کی حکومت کو قومی اسمبلی میں محض 5ارکان کی برتری حاصل ہے ۔ پاکستان کے ڈپٹی وزیر اعظم کے عہدہ کے بعد چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی کی سپیکری کو ٹھنڈے پیٹوں قبول نہیں کیا تھا۔اب ق لیگی رہنما کامل علی آغا کے حکومت پر سنگین الزامات کہ عمران خان کے نام پر رشوت لی جا رہی ہے اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے کابینہ میں عدم حاضری کے رویے سے ق لیگ کے بگڑے مزاج کا پتہ چل رہا ہے ۔ اس تمام صورتحال کی ٹائمنگ بہت اہم ہے ۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بل کی منظوری کے بعد نئی صورتحال پیدا ہو گئی ہے ۔ اس بل کی منظوری میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی رہی ۔ یہ سبھی جماعتوں کا اپنے اپنے بیانیے سے انحراف ہے ۔ فیصل واوڈا ایک ٹی وی پروگرام میں بوٹ لے آئے ہیں۔یہ انتہائی بھونڈی حرکت ہے ۔ انہوں نے تحریک انصاف کیلئے ایک نادان دوست کا کردار ادا کیا ہے ۔ آج کا اہم سوال یہی ہے کہ کیا یہ ساری صورتحال ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تیار کی گئی ہے ؟ ویسے اخبارات کے صفحات اور ٹی وی ٹاک شو، اس سلسلہ میں بہت کچھ بتا رہے ہیں۔ کالموں میں عمران خان کے بعد اور مائنس عمران خان کے عنوان سے بہت کچھ پڑھنے کو مل رہا ہے ۔ عمران خان کے بارے میں ایسی تحریریں پڑھنے میں آرہی ہیں جو اس سے پہلے دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ ایک کالم نگار نے عمران خان کی شخصیت کادو سطری نقشہ یوں کھینچا ہے ۔’’ ان کی زندگی میں معیشت کے معنی ہی بہت محدود ہیں۔ کرکٹ کھیل کر کچھ روپیہ کمایا ۔ جمائما بی بی سے پیسے لے کر مکان بنا لیا ۔ پیسے والوں سے سرمایہ اکٹھا کر کے اپنی والدہ کے نام پر ہسپتال بنا ڈالا۔ظاہر ہے کہ ان سے توقع ہی نہیں کی جا سکتی کہ روزگار کی فراہمی ، صنعتی ترقی ، زراعت یا معیشت کے دیگر شعبوں کے بارے میں زیادہ جانتے ہونگے‘‘۔ لکھنے والے نے ان کی دیانت کو ان کی نا اہلیت کے باعث بیکار ثابت کیا ہے ۔ ناقابل برداشت مہنگائی نے ایسی تحریروں کو مزید موثر بنا دیا ہے ۔ پھر نیب کے قوانین کی ترمیم نے عمران خان کے کرپشن کے بیانیے کا بھرکس نکال دیا ہے ۔ ان ترامیم نے عمران خان کو بھی روایتی سیاستدانوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے ۔ آج کا سوال یہی ہے کہ کیا عمران خان جا رہے ہیں؟مرزا غالب نے کہا تھا۔
؎دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
نیا سال میاں شہباز شریف کیلئے اچھی خبروں کی نوید لایا ہے ۔ وہ ن لیگ کو اداروں سے مزاحمت کی راہ سے مفاہمت کی راہ پر لے آئے ہیں۔یہی راستہ حکومت کے ایوانوں کی طرف جاتا ہے ۔ ان کی یہ بات نئی ہرگز نہیں ۔ ڈیڑھ برس پہلے بھی انہوں نے نئے معاہدہ عمرانی کی بات کی تھی ۔ ان کی تجویز تھی کہ عدلیہ ، فوج اور سیاستدان تازہ حالات میں ریاست کا نیا ڈھانچہ تشکیل دیں۔ ایک تازہ گیلپ سروے کے مطابق نواز شریف کے بعد پارٹی کی قیادت کیلئے 49%رائے میاں شہباز شریف کے حق میں اور صرف 12%مریم نواز کیلئے پائی گئی ۔گویا !مسلم لیگ ن کے ہاں بھی موسم میں پہلی سی حدت نہیں رہی۔ آج کی صورتحال میں پہلے سوال سے جڑا دوسرا سوال یہی ہے کہ کیا میاں شہباز شریف آرہے ہیں؟ اس آنے کو کیا کہئے ، اس جانے کو کیا کہئے ۔ یہ کیسا آناجانا لگا ہوا ہے ؟