• news

نیب لوگوں کو سزائیں سنائے گا تو کیا ہم عدالتیں بند کر دیں: جسٹس اطہر

اسلام آباد(وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس لبنی سلیم پرویز پر مشتمل ڈویژن بنچ نے سندھ روشن پروگرام میں مبینہ کرپشن کیس میں پیپلزپارٹی کے رہنماء شرجیل انعام میمن کی درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری میں 11فروری تک توسیع کردی۔ دوران سماعت لطیف کھوسہ نے کہاکہ ہم نے نیب آرڈیننس کے تحت انکوائری ختم کرنے کی درخواست بھی دی ہے، نیب سولر پینل کیس میں شرجیل میمن کی گرفتاری چاہتا ہے، شرجیل میمن نے صرف بطور وزیر سندھ روشن پروگرام کی سمری آگے بھیجی، شرجیل میمن منصبوے کی منظوری دینے والی کمیٹی کے رکن نہیں تھے،چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ اس کیس میں پہلی انکوائری کب کی گئی، جس پرایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل نے بتایاکہ 4 فروی 2019 کو پہلی انکوائری شروع ہوئی،اب رقم کی ریکوری کرناہے جس کیلئے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب انکوائری آڈر ہو گئی تھی تو آپ نے انکوائری کیوں شروع نہیں کی گئی،آپ ملزم کو حراست میں کیوں لینا چاہتے ہیں، آپ یہ بتا دیں رقوم کی وصولی کیلئے حراست میں لینے کا اختیار کہاں ہے، آپ کہتے ہیں انکوائری ہو گئی اب انوسٹی گیشن کرنا چاہتے ہیں؟چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر پر برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ کسی کو سزا دینا کیا نیب کا کام ہے؟ نیب لوگوں کو سزائیں سنائے گا تو کیا ہم عدالتیں بند کر دیں،شرجیل میمن پہلے بھی ایک کیس میں گرفتار رہ چکے ہیں، اس پر سردارمظفر نے کہاکہ پہلے شرجیل میمن اس کیس میں گرفتار نہیں تھے، چیف جسٹس نے کہا کہ جس کیس میں بھی گرفتار تھے آپ نے اْسی وقت ان سے تفتیش کیوں نہ کی؟20ماہ تک ایک بندہ گرفتار رہے اس وقت تفتیش کی جا سکتی تھی، نیب کے پاس کسی کو سزا دینے کا اختیار نہیں صرف تفتیش کر سکتا ہے،بتائیں اب کیوں شرجیل میمن کی دوبارہ گرفتاری چائیے ؟سردار مظفرنے کہا کہ ہم نے شرجیل میمن سے منصوبے میں کرپشن کی رقم برآمد کرنی ہے،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ نیب کے پاس کس قانون کے تحت گرفتار کر کے رقم برآمد کرنے کا اختیار ہے؟ کیا آپ نے شرجیل میمن کو گرفتار کر کے مارنا ہے، ٹارچر کرنا ہے؟اس پر سردارمظفر نے کہاکہ ہم نے ان پرکوئی ٹارچر نہیں کرنا، چیف جسٹس نے کہاکہ نیب کے پاس گرفتاری کا اختیار کتنا اور کن حالات میں ہے بار بار بتا چکے،نیب گرفتار صرف تفتیش کے لئے کر سکتا ہے،نیب کے پاس رقم برآمد کرنے کا اختیار نہیں، پلی بارگین بھی رضاکارانہ ہوتی ہے،نیب کس قانون اور اختیار کے تحت گرفتار کر کے رقم خود برآمد کر سکتا، گرفتاری کے دوران کوئی پلی بارگین پر راضی ہو تو وہ پلی بارگین نہیں ہو گا،ملزم پلی بارگین مکمل آزادی اور اپنی مرضی سے ہی کر سکتا ہے، اس موقع پرسردار مظفر عباسی نے کہاکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے ضمانت نیب کیس میں ایسے نہیں ہو سکتی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگلی سماعت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ دوبارہ پڑھ کر آئیں اورتفتیشی افسر آئندہ سماعت پر گرفتاری کی ٹھوس وجوہات بتائیں۔

ای پیپر-دی نیشن