حقوق خواتین ترمیمی آرڈیننس پر اپوزیشن کا احتجاج، ڈپٹی چیئرمین کی رولنگ، حکومت واپسی پر رضا مند
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + نوائے وقت نیوز ) ایوان بالا (سینٹ) میں وزارت توانائی کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کام ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے رک گیا ہے۔ خواتین حقوق ترمیمی آرڈیننس کے معاملے پر اپوزیشن کا ایوان میں شدید احتجاج، جس پر ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے آرڈیننس کے بجائے ترمیمی بل لانی کی رولنگ دے دی۔ احتجاج کے بعد خواتین حقوق ترمیمی آرڈیننس واپس لینے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ حکومت نے سینیٹ اجلاس کے دوران وقفہ سوالات میں وزارت توانائی کی جانب سے تحریری جواب جمع کروایا گیا۔ مذکورہ جواب عمر ایوب نے بتایا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر کام ایران پر عائد پابندیوں کی وجہ سے رک گیا ہے، تاہم وفاقی کابینہ کی منظوری کے ساتھ ایران اور پاکستان نے گیس پائپ لائن ترمیمی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ ترمیمی معاہدے کے تحت پاکستان اور ایران کو منصوبہ مکمل کرنے کے لیے مزید 5 سال کا عرصہ دیا جائے گا تاہم مزید کوئی بھی پیش رفت امریکی پابندیوں کے اٹھائے جانے سے وابستہ ہے۔ جواب میں کہا گیا کہ پاکستان میں تیل اور گیس کی تلاش کے شعبے میں 50 کمپنیاں کام کر رہی ہیں، 15 مقامی جبکہ 35 غیر ملکی کمپنیاں ہیں۔ گیس کی تلاش کے لیے کیکڑا ون بلاک کی 5 ہزار 693 میٹر گہرائی تک کھدائی کی گئی لیکن بدقسمتی سے یہ کنواں خشک تھا۔ اس وقت گہرے سمندر میں تیل اور گیس کی تلاش کے 12 بلاکس ہیں، یہ بلاکس وزارت دفاع سے سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد منظور کیے جائیں گے۔ دریں اثنا سینیٹ اجلاس کے دوران ملکیتی حقوق برائے خواتین ترمیمی آرڈیننس 2019 پر بھی بحث ہوئی۔ سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ ایوان میں بار بار آرڈیننس سے متعلق بات کی جا رہی ہے لیکن رول پڑھ کر سنانے میں بھی شرم آرہی ہے، جب ایوان چل رہا ہے تو پھر آرڈیننس کیوں؟، آرڈیننس کے ذریعے ایسا نہ کیا جائے۔ شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ تاہم ہم قانون سازی میں حکومت کے ساتھ ہوسکتے ہیں لیکن ہمیں موقع ہی نہیں دیا جارہا ہے۔ جس کے بعد آرڈیننس کے معاملے پر اپوزیشن کی جانب سے ایوان میں شدید احتجاج کیا ، جس پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے آرڈیننس کے بجائے ترمیمی بل لانی کی رولنگ دے دی۔ سینیٹر شیری رحمٰن نے وزیراعظم عمران خان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کا بھی معاملہ اٹھایا اور عمران خان کے بیان پر تحفظات کا اظہار کردیا۔انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کا وقار برقرار رہے، آئی ایم ایف کے ہاتھ میں اپنی داڑھی دی ہوئی ہے۔ شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں کشمیر کے بجائے افغانستان کو ترجیح دی، اگر خارجہ پالیسی میں ایسی کوئی تبدیلی آگئی ہے تو پارلیمان کو اس سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ ہو سکتا ہے وزیراعظم کا بیان سلپ آف ٹنگ ہو، تاہم انہوں نے کہا کہ ثالثی کا بیان ایک اہم بیان ہے، اس سے قبل بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی بات کی تھی، اس کے بعد کیا ہوا؟، شیری رحمٰن نے کہا کہ ثاثلی کا مطلب یہ تو نہیں، وزیراعظم ایوان میں آکر وضاحت دیں۔ ایوان بالا کے اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے مشاہد اللہ خان نے وزارت قانون سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ فروغ نسیم کے کچھ بلز تھے جو ہم نے کمیٹیوں کو بھجوا دیئے تھے۔مشاہد اللہ خان نے دعویٰ کیا کہ فروغ نسیم نے اس پر اتنا برا منایا کہ مجھے دھمکی دی گئی، وزیر قانون نے دھمکی دی کہ آپ یاد رکھیں، وہ سب کے سامنے مجھے کہتے ہیں کہ میں دیکھ لوں گا۔انہوں نے کہا کہ یہ جو 25، 30 سال سے کراچی میں کر رہے ہیں تو مجھے تو ڈر لگ گیا کیونکہ کراچی میں بوری بند لاشیں ملتی رہی ہیں، وزیر قانون بلدیہ فیکٹری کے قاتلوں کے بھی وکیل تھے۔ وزیر قانون نے ایک پارلیمانی لیڈر کو دھمکی دی، یہ مجھے نہیں جانتے میں دھمکی نہ دیتا ہوں اور نہ لیتا ہوں۔وزیرقانون نیآرڈیننس کا نیا کام پکڑ لیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وزیرقانون وضاحت تو دیں کہ وہ کس پارٹی سے ہیں، اس دوران مشاہد اللہ خان اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینیٹر بیرسٹر سیف کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔بیرسٹر سیف نے کہا کہ ایوان میں پارٹی کی بات نہ کی جائے، پارٹی کی بات ہوئی تو پھر نئی بحث چھڑ جائے گی۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا (لیڈر) نیلسن منڈیلا تھا تو آپ کا (لیڈر) بھی جارج واشنگٹن ہے جو لندن میں بیٹھا ہوا ہے۔ اسی دوران اجلاس میں موجود شبلی فراز نے مشاہد اللہ کے بیان پر واضح کیا کہ وزیرقانون فروغ نسیم نے کوئی ذاتی دھمکی نہیں دی۔اجلاس کے دوران نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاصل بزنجو نے امریکی سفیر کے بیان پر کہا کہ ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری پاکستان میں بیان دیتے ہیں کہ سی پیک پاکستان دشمن پروگرام ہیں اور وہ کمپنیاں جنہیں ورلڈ بینک نے چور کہا ہے انہیں ٹھیکے دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسی وزیر نے اس کی تردید نہیں کی لیکن بعد میں چینی سفیر نے پریس کانفرنس کی اور امریکا کو جواب دیا، ایسا لگا جیسے ہماری زمین پر ہمارا وجود نہیں، جیسے یہ امریکا یا چین کی زمین ہے۔ سینیٹ اجلاس کے دوران سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ امریکی سفیر ایلس ویلز کا بیان پاکستان کے اندورنی معاملے میں مداخلت ہے۔سراج الحق نے کہا کہ کے پی کے میں شدیدبرف باری ہوئی ہے جس سے دیر چترال شانگلہ اورکوہستان کے اضلاع شدید متاثر ہوئے ہیں۔ بجلی کا نظام تباہ ہوگیا ہے ٹرانسفارمرزکی مرمت کے لیے لوگ چندہ کر رہے ہیں۔ ان ٹرانسفارمر کی مرمت حکومت کی ذمہ داری ہے حکومت یقین دہانی کرائے کہ تین دن میں تمام ٹرانسفارمر ٹھیک کریں۔ ٹرانسپیرنسی نے کہاکہ دس سال سے کرپشن میں کمی ہوئی اور آج دوبارہ زیادہ ہوگئی ہے کرپشن کے خاتمہ میں کوئی لائحہ عمل حکومت نے نہیں دیا ہے۔ علی محمد خان نے کہاکہ برف باری شاید ہوئی ہے این ڈی ایم اے کو ہدایات دی ہیں پہلے چندوں سے ٹرانسفارمر ٹھیک ہوتاتھا مگر اب ایسا نہیں ہوتا ہے اگر ہواہے تو سخت نوٹس لیاجائے گا۔ بجلی کا نظام جلد ٹھیک کرلیں گے۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ بھارت ، امریکہ کی پہلی محبت ہے ٹرمپ بھارت کے دورے پر آ رہا ہے ، پاکستان نہیں ، وزیر اعظم حجاب سے نکلیں اور باہر آئیں، وزیر اعظم ایوان میں آکر بیان دیں۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ وزیراعظم کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی وزیراعظم نے پہلی ترجیح کشمیر کو نہیں افغانستان کو دی، انہوں نے کہا ہمارے لئے سب سے اہم معاملہ افغانستان کا ہے۔ تبدیلی سرکار نے کشمیر پر یو ٹرن لے لیا ہے۔ کشمیر یکجہتی کا کیا ہوا، ہماری کشمیر میں جڑیں ہیں، آپ نے پارلیمان اور کسی کمیٹی کو کوئی تبدیلی کی وضاحت پیش نہیں کی۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ اگر حکومت نے کشمیر پالیسی میں تبدیلی لائی ہے تو یہاں بتایا جائے، وزیراعظم پارلیمان میں آئیں اور جواب دیں۔ایوان بالا کے اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاج کے بعد حکومت" ملکیتی حقوق برائے خواتین( ترمیمی) آرڈیننس " واپس لینے پر رضامند ہو گئی اور ترمیمی بل متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے حکومت کو آرڈیننس میں پیش کی گئی ترمیم مجلس قائمہ میں بل میں پیش کر نے کی ہدایت کر دی۔ قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے کہا کہ ایک نان ایشو پر اتنا وقت لیا گیا۔ صدر کو خیال کرنا چاہئے کہ کوئی کاغذ کا ٹکڑا بھیج دے تو آرڈیننس جاری کر دیتے ہیں، اس موقع پر ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے کہا یہ ترمیم آرڈیننس کے ذریعے ہے، آپ یہی ترمیم کمیٹی کے اندر بل میں پیش کر دیں، آپ یہ ترمیم واپس کریں۔ اعظم خان سواتی نے کہا کہ یہ اچھا بل ہے اس کو کمیٹی کے سامنے بھیجا جائے۔ سینٹ اجلاس کے دوران سابق حکومتوں پر لگائے گئے سولر منصوبوںپر تنقید کرنے پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر پرویز رشید نے وفاقی وزیر عمر ایوب خان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ سینٹر پرویز رشید نے کہا کہ جب سابقہ حکومت کام کر رہی تھی تو یہ ہمارے ساتھ بیٹھے تھے، ان کو کہیں سوالوں کے جواب دیں، ورنہ پھر موجودہ حکومت کی بات بھی ہو گی، ان سے تین سو ڈیموں کا پوچھا جائے گا۔ جمعہ کو سینٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب خان نے سابقہ حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پرانے سولر کے منصوبے مہنگے لگے تھے، یہ سابقہ حکومتوں میں لگے، سابقہ حکومتوں نے مہنگی گیس کے منصوبوں کو ترجیح دی۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان کے سوال کے تحریری جواب میں عمر ایوب خان نے ایوان کو بتایا کہ گوادر میں 300میگا واٹ بجلی کا منصوبہ قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت بنایا جا رہا ہے ،سینیٹر جہانزیب جمالدینی کے سوال کے تحریری جواب میں وزیر قانون نے ایوان کو بتایا کہ 8جنوری 2020تک سیکرٹری قانون کے سٹیزن پورٹل پر کل 417قابل کاروائی شکایات موصول ہوئیں، 395کو نمٹا دیا گیا 22شکایات وزارت قانون کے متعلقہ سیکشنزمیں جواب کے منتظر اور زیر عمل ہیں۔