مصر کی 3 ہزار سال پرانی لاش پر برطانیہ میں تجربہ، دوبارہ آواز سنی گئی
قاہرہ (بی بی سی) سائنسدانوں نے ایک 3000 سال پرانے مصری راہب کی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کی خواہش کچھ حد تک پوری کر دی ہے۔ یہ تب ممکن ہوا جب انھوں نے اس کی حنوط شدہ لاش یا ممی میں موجود آواز کی نالی کی ایک مصنوعی شکل تیار کی اور اس سے پیدا ہونے والی آواز کی ایک نقل تیار کر لی۔ نسیمْن کے بولنے سے حرف علت جیسی آوازیں سنی گئیں، جیسے ایک بھیڑ ممیاتا ہے۔ خیال ہے کہ اس مصری راہب نے 11ویں رامزیز نامی فرعون کے دور میں زندگی گزاری ہوگی۔ 1099 سے 1069 قبل مسیح کے دوران یہ دور سیاسی اعتبار سے غیر مستحکم تھا۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق تھیبز میں ایک راہب ہوتے ہوئے نسیمْن کے لیے اپنے رسمی فرائض سرانجام دینے کے لیے ایک طاقتور آواز درکار ہوگی۔ ان کے فرائض میں گانا بھی شامل تھا۔ جب نسیمْن کی موت ہوئی تو ان کی آواز خاموش پڑ گئی۔ لیکن اب 3000 سال بعد محققین کے ایک گروہ نے ان کی آواز کو دوبارہ زندہ کردیا ہے۔ ماہرین کی جانب سے یہ کہا جا رہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا تجربہ ہے جس میں ایک مردہ انسان کی آواز کو مصنوعی طریقوں سے دوبارہ پیدا کیا گیا ہے۔ محققین امید رکھتے ہیں کہ مستقبل میں کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کی مدد سے وہ نسیمن کی آواز سے پورے جملے تشکیل دے سکیں گے۔ یہ تجربہ برطانیہ کے رائل ہالوے میں کیا گیا جس میں یونیورسٹی آف لندن، یونیورسٹی آف یورک اور لیڈز میوزیم کے محققین شامل تھے۔ یہ تحقیق جمعرات کو سائنٹیفک رپورٹس نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ جوئین فلیچر ایک ماہر آثار قدیمہ ہیں جو یونیورسٹی آف یورک میں پروفیسر ہیں اور انہوں نے اس تحقیق میں بھی حصہ لیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ مردہ شخص کی آواز دوبارہ پیدا کرنے کے اس عمل نے ’ایک منفرد موقع فراہم کیا ہے جس کے ذریعے اب ہم کسی بھی ایسے شخص کی آواز سن سکتے ہیں جو مر چکا ہے۔