افغان حکومت ، طالبان اور سیاسی گروپس میں روابط کا فقدان، نئی خانہ جنگی کا خطرہ
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات فیصلہ کن مرحلہ میں پہنچ گئے ہیں اور طرفین پرامید ہیں کہ انکے درمیان امن معاہدہ طے پا جائے گا لیکن مجوزہ معاہدہ ، اس جنگ زدہ ملک میں قیام امن کا ضامن نہیں ،کیوں کہ طالبان اور افغان حکومت و دیگرگروپوں کے درمیان نہ تو باضابطہ بات چیت شروع ہوئی ہے اور نہ ہی اس ضمن میں فوری طور پر پیشرفت کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔ طالبان اور دیگر افغانوںکے درمیان، آئندہ کے سیاسی، دستوری اور حکومتی ڈھانچہ پر روابط کے فقدان کی وجہ سے، ملک میں ایک اور خانہ جنگی کا خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے افغانستان کی بدامنی کا سب سے زیادہ نقصان اٹھانے کے ناطے پاکستان، ایک نئی خانہ جنگی کے خطرہ سے بدکا ہوا ہے اور اسی واسطے، طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے علاوہ وہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کیلئے قائل کرنے کی ہر ممکن کوششیں کرتا رہا ہے۔ امن معاہدہ ہونے کی صورت میں مغرب زدہ حکمران اشرافیہ کی چھٹی ہونا یقینی ہے۔ چاہیے تھا کہ افغان حکمران، ملک کو مزید بد امنی سے بچانے کیلئے سیاسی مفادات سے بلند ہو کر، مجوزہ امن معاہدہ کا خیر مقدم کرتے، الٹا، انہوں نے مذاکرات کی مخالف پر کمر کس لی ہے۔کابل میں مقیم افغان امور کے ماہر ہارون ذخیل وال بھی افغانوںکے درمیان مذکارات اور مفاہمت کی اہمیت سے آگاہ اور اس حوالے سے پرامید ہیں۔ کابل سے نوائے وقت کے ساتھ اس موضوع پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس منعقد ہونے والی ماسکو کانفرنس کے دوران افغان سیاسی جماعتوں اور شرکاء نے طالبان پر واضح کیا تھا کہ ایک روز انہیں ضرور افغان حکومت کے ساتھ بات کرنی پڑے گی۔ اگرچہ گل بدین حکمت یار، حامد کارزئی اور دیگر اہم افغان راہنمائ، حکومت سے خوش نہیں ہیں لیکن طالبان کے ساتھ اپنے روابط کے دوران انہوں نے بھی زور دیا کہ طالبان کو افغان حکومت سے رابطہ کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں امریکہ، یوروپی یونین اور پاکستان نے مثبت کردار ادا کیا ہے۔ تاہم یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر رویہ تبدیل نہیں کیا بلکہ قدرے لچک پیدا کی ہے۔ وہ اس روایتی موقف پر قائم ہیں کہ افغان حکومت کی حثییت کٹھ پتلی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اگر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ہوئے تو، اسلام آباد، کابل یا وشنگٹن میں نہیں ہوں گے کیونکہ بات چیت غیر جانبدار مقام کی متقاضی ہے۔ جرمنی اور ناروے نے پہلے سے مجوزہ بات کیلئے میزبانی کی پیشکش کی ہوئی ہے۔ مذاکرات منعقد ہوتے ہیں تو طالبان کا ایجنڈا دو اہم نکات ہوں گے۔ پہلا، اپنی طویل جدوجہد کی قانونی اور جائز حثییت کو منوانا ہے۔ دوسرا افغانستان میں آئندہ کے سیاسی اور حکومتی ڈھانچہ میں فیصلہ کن، اور موثر حثییت حاصل کرنا ۔قوی امکان یہ ہے کہ اس نوعیت کی بات چیت کیلئے مجموعی طور پر مختار کل تو ملا برادر ہی ہوں گے لیکن وفد کی سربراہی عباس ستانکزئی کے سپرد کی جائے گی۔ جب کہ حکومتی وفد کے ممکنہ سربراہ سلام رحیمی ہو سکتے ہیں۔ سرکاری وفد میں یقیناً ملک کی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی بھی ہو گی جس میں حزب اسلامی، جمیعت اسلامی، ہزارہ کی دو سیاسی جماعتوں کے نمائندے، حامد کرزئی، رشید دوستم اور بعض دیگر سیاسی قائدین کے نمائندے شامل ہوں گے۔