کراچی تباہ، قبرستان غائب، وزیراعلیٰ لکھ کر دیں بلدیاتی نظام فعال کیوں نہیں کر رہے: چیف جسٹس
کراچی (وقائع نگار+نیوز ایجنسیاں) چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے حکم دیا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے چاہیے، جو راستے میں آتا ہے سب توڑ دیں۔ جمعرات کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کراچی رجسٹری میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سمیت مختلف کیسز کی سماعت کی۔ تجاوزات نہ ہٹانے سے متعلق بیان دینے پر سابق وزیر بلدیات سعید غنی توہین عدالت نوٹس کیس میں پیش ہوئے۔ سپریم کورٹ کے باہر سندھ گورنمنٹ کوآپریٹو ہاوسنگ سوسائٹی کے الاٹیز اور دیگر نے احتجاج کیا جس پر چیف جسٹس نے مظاہرے کا نوٹس لیتے ہوئے مظاہرین سے درخواستیں طلب کرلیں جو سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل میں بھیجی جائیں گی۔ سرکلر ریلوے کی بحالی کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہاکہ وزیراعلی سندھ کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں کہ اب تک کراچی سرکلر ریلوے کیوں بحال نہیں ہوئی۔ ہم وزیراعلی، میئر کراچی اور سیکرٹری ریلوے کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیتے ہیں، سرکلر ریلوے کی فوری بحالی چاہتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکم پڑھ کر سنایا جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ کراچی سرکلر ریلوے سی پیک کا حصہ ہے، ماضی کا سرکلر ریلوے بحال کرنا ممکن نہیں ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں جب بسیں نہیں تھیں تو عوام کے لیے سرکلر ریلوے ہی تھا جس پر وہ سفر کرتے تھے۔ سیکرٹری ریلوے کو بلا کر کہاکہ بابو نہ بنیں کہانیاں مت سنائیں، کام نہیں کرسکتے تو گھر جائیں، آپ منشی نہیں سیکرٹری ریلو ے ہیں۔ برسوں سے اجلاس ہو رہے ہیں لیکن کام کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ بیرسٹر فیصل نے کہاکہ ساڑھے چھ ہزار لوگوں کو بے گھر کر دیا گیا، بڑے بڑے پلازے نہیں گرائے گئے، صرف غریبوں کو بے گھر کیا گیا ہے۔ ریلوے کی زمین پر بڑی بڑی عمارتیں بن گئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاہدے کے تحت وزارت ریلوے نے اپنا کام نہیں کیا، لیکن اگر ریلوے وزرات نے کچھ نہیں کیا تو آپ نے کیا کیا، آپ لوگوں کو اپنا سیاسی ایجنڈا دیکھنا ہوتا ہے، آپ کبھی نہیں بنائیں گے، کمشنر صاحب، آپ جائیں، آج ہی ساری عمارتیں گرائیں، حسن اسکوائر پر جائیں، پورے علاقے پر قبضہ ہے، ریلوے ٹریک نہیں ریلوے زمین پر سے تمام قبضے خالی کریں، ہمیں کچھ نہیں سننا، کراچی سرکلر ریلوے کب بنائیں گے، کمشنر صاحب، سن لیں ایک ہفتے میں ریلوے کی زمین سے قبضے ہٹائیں، مئیر صاحب، کراچی کے اصل سربراہ تو آپ ہیں، آپ بتائیں، آپ نے کیا کیا، جو کچھ راستے میں آتا سب توڑ دیں، ریلوے کی ہائوسنگ سوسائٹیز ہوں یا پٹرول پمپ سب گرائیں، ہمیں اصل حالت میں کراچی سرکلر ریلوے چاہیے۔ عدالت نے سیکرٹری ریلوے سے تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ اگرعدالت کو مطمئن نہ کر سکے تو سب کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کریں گے۔ تجاوزات کیس میں ریمارکس دیئے ہیںکہ کراچی کو تباہ کردیا گیا قبرستان تک غائب کر دیئے گئے، وزیراعلی سندھ لکھ کر دیں کہ بلدیاتی نظام کو فعال کیوں نہیں کر رہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ایڈووکیٹ جنرل اور چیف سیکرٹری سے کہا کہ کیا شہر میں غیر قانونی تعمیرات ختم ہوگئیں، پارکوں اور کھیل کے میدانوں کی کیا صورتحال ہے، کیا آرٹیکل 140اے سندھ میں لاگو نہیں ہوتا، بلدیات کو فعال کیوں نہیں کر رہے، بلدیاتی نظام کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں؟۔ چیف سیکرٹری نے کہا کہ سندھ حکومت نے بیشتر اختیارات میئر کراچی کو ہی دے رکھے ہیں اور وسیم اختر کا کہنا غلط ہے کہ ان کے پاس اختیارات نہیں۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے کہا کہ آپ ملین ڈالر لگاتے ہیں لیکن سارا پیسہ تو آپ لوگوں کی جیبوں میں جاتا ہے، یہ بتائیں آخری بار کون سی سڑک کا دورہ کیا، کبھی لیاری، پاک کالونی یا لالو کھیت گئے، میئر کراچی کی کہانی بھی نہیں سنیں گے، وہ گیت سناتے ہیں مگر نہیں سنیں گے۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ وزیراعلی سندھ سے دستخط کروا کر رپورٹ جمع کرائیں، وزیراعلی سندھ تحریری طور پر بتائیں کہ بلدیاتی نظام کو فعال کیوں نہیں کر رہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ہمیشہ سے وسائل سندھ حکومت نے اپنے پاس رکھے، کار پارکنگ فیس میئر کراچی پر چھوڑ دی، لیکن جہاں ایک دن میں کروڑوں بنتے ہیں وہ ادارے سندھ حکومت کے پاس ہیں۔ کراچی میں ایک فیصد پیشہ ورانہ کام نہیں ہو رہا، کراچی کوئی گائوں نہیں پاکستان کا نگینہ ہوتا تھا، یہ ظلم کراچی کے ساتھ کیوں کیا گیا، صرف مفاد پرستی کی خاطر، سارے پارک ختم کردیے، تباہ کر دیا شہر کو ، عمارتوں کا بے ہنگم جنگل بنا دیا، پارک ہی نہیں قبرستان تک غائب کر دیے گئے، میئر صاحب آپ بتائیں، آپ نے کیا کیا۔ وسیم اختر نے کہا کہ میں نے سڑکیں بنائی ہیں۔ چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ کہاں بنا دیں سڑکیں؟۔ میئر کراچی نے جواب دیا کہ میں نے ناظم آباد میں چھوٹی سڑکیں بنائیں ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ناظم آباد میں تو کوئی چھوٹی سڑک ہی نہیں۔ عدالت میں کڈنی ہل پارک کی زمین پر غیر قانونی قبضے کے معاملے کی بھی سماعت ہوئی۔ کمشنر کراچی نے بتایا کہ ہم نے تمام زمین پر قائم قبضے ختم کرا دیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کمشنر کراچی صاحب، ایسا نہیں، قبضے اب بھی ہیں۔ خاتون شہری نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ ساڑھے 7 ایکڑ پر اب بھی قبضہ ہے جس پر سکول اور دیگر عمارتیں قائم ہیں۔ عدالت نے کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ آپ کل تک ساڑھے 7 ایکڑ پر قائم غیر قانونی قبضے ختم کرائیں، 62 ایکڑ پوری کی پوری زمین پر کوئی قبضہ نہیں ہونا چاہئے، پہاڑی پر چاروں طرف تو گھر بنا لیے گئے ہیں، وہ تمام گھر بھی گرائیں، جو جو غیر قانونی قبضہ کرے گا سب گرے گا۔ سپریم کورٹ نے ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ظفر احسن کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے بے نظیر بھٹو پارک کی جگہ پر عمارت بنانے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عمارت کے مالک اخلاق میمن کو نوٹس جاری کر دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سندھی مسلم سوسائٹی میں چائینہ کٹنگ کر دی گئی، پورے شاہراہ کشمیر پر ہی چائینہ کٹنگ کردیں، اس پر بورڈآف ریونیو نے بتایا کہ یہ زمین سندھی مسلم سوسائٹی نے دیگر لوگوں کو الاٹ کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی شاہراہ فیصل الاٹ کردے تو کیا کریں گے، یہاں سب کچھ الاٹمنٹ کرنے کا لیٹر جاری ہوجاتا ہے، سندھی مسلم سوسائٹی میں نالے کی زمین پر کیسے عمارت بن گئی۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ناظم آباد میں ہر گلی، محلے میں کھلے پیسے لے کر پورشن بن رہے ہیں، کیا میرے ساتھ ابھی جا کر دیکھیں گے؟انہوں نے کہا کہ سرکاری نمبر پلیٹ کی گاڑیاں کھڑی کرکے غیر قانونی تعمیرات کی جا رہی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مکمل طور پر کراچی شہر کے لیے تباہی ہے۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ چیف سیکرٹری صاحب، ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول کو فوری ہٹائیں۔سپریم کورٹ کی جانب سے جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعلی سندھ تمام معاملات خود دیکھیں اورکسی ایماندار افسر کو تعینات کیا جائے، فیصلے میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے تمام اعلی افسران کو بھی ہٹانے کا حکم دیا گیاہے۔عدالت نے کہا کہ وزیراعلی سندھ ڈی جی ایس بی سی اے کو ہٹا کر ایماندار افسر تعینات کریں،عدالت نے چیف سیکرٹری کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے معاملات سنبھالنے کاحکم دیدیا۔عدالت نے کہا کہ جب تک نیاڈی جی نہ لگے چیف سیکرٹری خودمعاملات کنٹرول کریں ،عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سند ھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کا یہ محکمہ بہت کرپٹ ہے ،ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ میں تسلیم کرتاہوں مگرکچھ ایماندارافسر بھی ہیں ،عدالت نے شاہراہ قائدین نالے پرپٹرول پمپ اوردیگرتجاوزات فوری ختم کرنے کابھی حکم دیدیا عدالت نے ڈائریکٹر ایس بی سی اے مشتاق سومروکو بھی فوری طورپر ہٹانے کا حکم دیدیا۔