سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کی کمیٹی ؟
لیجئے صاحب! پنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے بھی اپنی پٹاری کا ڈھکنا سرکا دیا ہے جس سے اٹھنے والی شکوہ و شکایات کی بو باس نے سیاسی فضا میں چہ میگوئیوں کا راستہ کھول کر رکھ دیا ہے۔ ان کے اس اقدام سے قبل الیکٹرانک میڈیا پر خدا معلوم کن حلقوں کی خوشنودی کے لئے اس مہم کی نیو اٹھائی گئی کہ پنجاب کے چیف ایگزیکٹو کے خلاف انہی کی جماعت کے بعض ناراض ارکان کے ساتھ مل کر صوبائی ایوان میں قائد کی تبدیلی کے امکانات روشن ہیں اور نئے قائد ایوان کے طور پر چودھری پرویز الٰہی کا نام بڑی شدو مد سے لیا گیا۔ یہ ٹیم کچھ اس طرح منظرِ عام پر لائی گئی کہ ملک کی پارلیمانی اور سیاسی تاریخ کی کروٹوں سے واقف صحافتی اور اہل خرد حلقوں کو اس بات پر حیرت ہونے لگی اس قسم کی اچانک پیش گوئیوں پر برسرِ اقتدار سیاسی قیادت کے ذمہ دار اعضا وجوارح اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی پر بے خبر کیوں لمبی تان کر محوخواب ہیں۔ یہ سبھی کچھ حکومتی منشاء و مرضی کے مطابق ہو رہا ہے۔ تاہم جس تیزی کے ساتھ پنجاب کی حکومتی قیادت کی تبدیلی کا شور الیکٹرانک میڈیا پر اٹھا تھا، فوراً ہی اس کی گرد بیٹھ گئی اور یہ سب کچھ چائے کی پیالی میں طوفان ثابت ہوا۔ مگر اس کے فوراً بعد یار لوگوں نے حکومتی پارٹی کے اتحادیوں کے مابین بعض معاملات پر عدم اتفاق ہونے کے شوشے چھوڑنے شروع کر دئیے۔ اس سے قبل حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ایک وفاقی وزیر کے استعفے نے بھی ایک طرح کی ہلچل مچا دی۔ یہاں بھی ایوان اقتدار کے مکینوں بالخصوص اکثریتی حکومتی پارٹی کی ساکھ اور وقار و مفادات کے تحفظ کے ذمہ دار کی طرف سے اپنے فرائض سے غفلت کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اتحادی جماعت کو رام کرنے کی حکومتی مساعی کے دوران ایم کیو ایم سے برملا کہا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے جو وعدے کئے تھے وہ پورے کئے جائیں۔ وہ وعدے کیا تھے؟ کیا وہ وعدے پرانی تنظیم ایم کیو ایم کی طرف سے تھے یا موجودہ شکل میں بوجوہ ڈھلنے والی ایم کیو ایم کی نئی تنظیمی قیادت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ غالباً اس کی چھان پھٹک اور حقائق سے آگاہی حاصل کئے بغیر کوئی ایسا وعدہ کیا گیا ہو گا جس کے پورا کرنے میں پس و پیش ہو رہا ہو گا۔
ایسی صورتحال میں بقول چودھری پرویز الٰہی پہلی کمیٹی کی موجودگی میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اتحادی امور کے حوالے سے جو نئی کمیٹی تشکیل دے دی ہے اس پرسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی نے اپنے دل کا غبار یہ کہہ کر ظاہر کر دیا ہے کہ ہمیں نئی حکومتی کمیٹی کی سمجھ نہیں آئی۔ حالانکہ ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے کہ قدرے گرم و سرد چشیدہ سیاسی کھلاڑی چودھری پرویز الٰہی کو اس میدان کے کسی کھلاڑی کی کسی چال کی سمجھ نہ آ سکے۔ درحقیقت سمجھ تو انہیں آ گئی ہو گی۔ البتہ دوسروں کو سمجھانے کی کوشش میں انہوں نے اپنی معنی خیز بات کو یوں الفاظ کا جامہ پہنایا ہے کہ ہم نے بھی کمیٹی ڈالی ہے جو ابھی نکلی نہیں؟ دوسروں کی رمز کی بات سمجھانے کے لیے انہوں نے بابا بلھے شاہ کا سہارا لیا ہے اور کہا ہے کہ اگلی توں نہ پچھلی توں میں صدقے جاواں وچلی توں۔‘‘ چودھری پرویز الٰہی جس سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس خاندان کی روایات کی پاسبانی کا حق ادا کرنا جانتے ہیں اور اس روایت کو پاکستان مسلم لیگ (ق) کے پلیٹ فارم سے انہوں نے اپنا کر اور اس پر عمل کر کے بھی دکھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی موجودگی میں پاکستان مسلم لیگ (ق) بحرِ سیاست میں ڈوب ڈوب کر اُبھرتی رہی اور اب بھی معدودے چند نشستوں کی حامل ہونے پر بھی وفاق اور پنجاب میں مقتدر حلقوں میں شمار کی جانے کے قابل کے اور اپنی اس حیثیت کا تحفظ کرتے ہوئے ہی تو چودھری پرویزالٰہی نے اپنی کمیٹی ڈالنے کی بات کے حوالے سے اکثریتی سیاسی قیادت کو چونکنے کا موقع دیا ہے۔ وہاں انہوں نے یہ کہہ کر اس کی تشویش کو ہلکا کر دینے کی سعی بھی کر دی ہے کہ ہم جس کے ساتھ چلتے ہیں‘ نیک نیتی کے ساتھ چلتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت چلے اور اپنی مدت پوری کرے ساتھ ہی انہوں نے دوسرے عناصر کے منہ سے نکلنے والی اس بات کو خود ہی ادا کرنے میں اپنی بھلائی سمجھی کہ ہمیں احساس ہے کہ حکومت کو نقصان پہنچا تو ہمیں بھی پہنچے گا۔ (جاری)
ناقابل تردید حقیقت یہ لگتی ہے کہ بحر سیاست میں تہہ آب کچھ ہلچل ضرور ہے۔ تبھی تو ملک کی برسراقتدار سیاسی قیادت کی چھائوں میں دانہ دنکا چننے والے اپنے حقیقی فرائض کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف ایسے ہی راگ میں ہم آواز ہونے پر اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں جس کا مقصد مسند اقتدار پر براجمان قیادت کی خوشنودی حاصل ہو اور ایوان اقتدار میں ان کا نام ایسے ارکان کی صف میں گنا جائے جن کی توپوں کے دھانے ارباب اختیار پر تنقید کرنے والوں کی طرف الفاظ کی گولہ باری میں مصروف ہوں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کرنے والی لاکھوں روپے ماہانہ کی آسائش زندگی کی مراعات ان سے عوام کے دکھ درد دور کرنے کی خاطر کن فرائض کی بجاآوری کا تقاضا کرتی ہیں۔ ملکی سیاسی فضا میں بعض شعبہ ہائے زندگی کی طرف سے پیدا کی گئی ہلچل سے پیدا شدہ عوامی بے چینی اور عملی طورپر پیدا ہونے والی مشکلات میں ان کے فرائض کیا ہیں؟ کسی سیاست میں خلفشار‘ نفسانفسی اور اقتدار کی رسہ کشی کے نتیجے میں اکھاڑ پچھاڑ کوئی نئی بات نہیں مگر تازہ ترین سیاسی ڈگر پر جا رہے ہیں‘ وہ چلن انوکھا اور نرالا ہے۔ ملک کا کوئی ایک قومی شعبہ بھی ایسا نہیں جسے بحرانوں سے واسطہ نہ ہو‘ ایسے ایسے بحرانوں جن سے ملک کے عوام براہ راست متاثر ہو رہے ہوں۔ متاثر کا لفظ اس حوالے سے استعمال کرنے کی بجائے لفظ مجروح استعمال کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔ بحرانوں سے بری طرح مجروح عوام کو اچھے حالات کے لوٹانے یا لوٹ آنے کی ڈھارس بندھانے کیلئے خوراک‘ زراعت‘تعلیم‘ صحت‘ علاج‘ صنعت‘ روزگار‘ رہائش‘ پنشن‘ ٹرانسپورٹ‘ مزدوری‘ مزدوروں کی اجرت‘ اوقات کار کے تعین اور ان کی پابندی‘ انصاف‘ مظلوموں کی دادرسی سمیت کوئی بھی شعبہ‘ ادارہ یا ان کے حوالے سے عوام کو سہولتیں اور ان کی فراہمی کیلئے حکومت کی طرف سے تعینات ذمہ داروں کی کھیپ تو ہوگی مگر عوام سے متعلق ان کی ضروریات سے لاپروا۔
بحرانوں کی صلاحیتوں سے عاری‘ فرائض سے بجاآوری کی اہلیت کے ناقابل اور قومی و ملکی درد سے آشنا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو قوم کے تمام کے تمام شعبے شدید اور سنگین بحرانوں کا شکار نہ ہو چکے ہیں۔ کسی ایک شعبے کے معاملات سے عہدہ برا ہونے والے کا نام عوام کے نزدیک جانا پہچانا ہے نہ ان کا کام نظر آتا ہے۔ ایسے میں چودھری پرویزالٰہی نے جو کمیٹی ڈالی ہوئی ہے‘ وہ کب نکلے گی؟ یہ کمیٹی انہوں نے کہاں ڈالی تھی کس کو تھمائی تھی؟ اس سوال کا جواب وہی جانتے ہیں مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ چودھری پرویزالٰہی نے اپنی جس کمیٹی کی طرف دو ٹوک الفاظ میں بات کی ہے‘ اس کمیٹی کے حوالے سے ’’کوٹمنٹ‘‘ کرنے والے ضرور سمجھ گئے ہونگے کہ کمیٹی ادا نہ ہونے کی صورت میں انہیں کن نتائج کو بھگتنا ہوگا اور اگر بحرانوں پر قابو پانے والی ٹیم پر نظرثانی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی تو پھر بحر سیاست میں تہہ آب مدوجزر کے منظرعام پر آنے کے نتائج کسی صورت بھی ارباب اقتدار کے حق میں نہیں ہونگے۔