70کی سیاست کا ایک اہم پہلو
1970تک تحریک استقلال کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا،تاہم اصغرخاں نے جسٹس پارٹی کے نام سے ایک جماعت بنا لی تھی اورایک مقبول سیاسی ومذہبی راہنما کے طور پر ابھر کرسامنے آئے تھے۔بارے ذکر دیگر سیاسی ومذہبی جماعتوں کا ہوجائے۔ پیپلز پارٹی ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر گلبرک لاہور میں جنم لے چکی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے شعلوں کی طرح پنجاب اور سندھ میں پھیل گئی۔مشرقی پاکستان ،صوبہ سرحداب (KPK)اور بلوچستان اس کی زد سے محفوظ رہے ۔ذوالفقار علی بھٹو چند بار مشرقی پاکستان گئے مگر زیادہ تر وہ مغربی پاکستان بالخصوص پنجاب میں سیماب فطرت اور پارہ صفت عوامی راہنما کے طور پر لاکھوں لوگوں کو مسحور کرتے رہے۔مشرقی پاکستان میں نہ پیپلز پارٹی تھی اور نہ قومی انتخابات میں اس کا کوئی امیدوار۔ایوب خاں کی بنائی ہوئی مسلم لیگ(کنونشن)کا جنازہ نکل چکا تھا۔ صرف مسلم لیگ (کونسل)میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ کی سربراہی میں اپنے روائتی جوڑ توڑ کے انداز میں سیاسی عمل کا حصہ تھی۔خود دولتانہ کا مشرقی پاکستان میں کوئی اثر نہ ہونے کے باوجود کونسل مسلم لیگ انہیں کے نام سے منسوب رہی ۔کونسل مسلم لیگ کامرکز بھی لاہور میں تھا۔ایک سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی نے نظام اسلام پارٹی بنائی ہوئی تھی ۔مشرقی پاکستان سے مولوی فرید شہید اس کے عہدیدار تھے،چوہدری محمد علی بھی لاہور میں رہا کرتے تھے۔سیا سی ومذہبی جماعتوں میں تب تنظیم پراپیگنڈا اور الوالعزم کے لحاظ سے جماعت اسلامی سب سے آگے تھی ۔یہ جماعت اسلامی کے بہار کے دن تھے ۔گلی گلی کوچہ کوچہ"اسلام خطرے میں ہے" کانعرہ مستانہ بلند کرتے ،پمفلٹ چھپواتے، مخالفین پر کفر والحاد اور کیمونسٹ ہونے کا الزام لگاتے، مستقبل کے سہانے خواب دیکھتے،دل ہی دل میں اپنی حکومت کا قیام عمل میں لاتے ہوئے خوب گرج اور چمک رہے ہوتے۔سیاست کے تالاب کا پانی انہوں نے کبھی کھڑا نہیں ہونے دیا،ہمہ وقت اس میں فتووں ،جلسوں ،جلوسوں، نعروں ،للکاروں اور یلغاروں کے پتھر پھینک پھینک کر سیاست کو مغربی اور مشرقی پاکستان میں خوب گرمائے رکھا۔مشرقی پاکستان میں ایک معقول جماعت ہونے کے باوجود اس کا مرکز بھی 5-A ذیلدار پارک اچھرہ تھا۔اور اچھرہ بھی لاہور میں تھا۔جمعیتہ علماء اسلام کے امیر مولانا عبیداللہ انور تھے۔جن کا سیاست کدہ شیرانوالا گیٹ لاہور تھا۔مولانا کے علاوہ مفتی محمود ،مولانا غلام غوث ہزاروی،مولانا عبداللہ درخواستی اور مولانا زاہد الراشدی جمعیتہ کے اہم راہنمائوں میں شمار ہوتے تھے۔ جمعیت علماء اسلام نے ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں بڑے ایمانی جذبے سے جاری رکھیں۔لاہور کا موچی دروازہ ،شیرانوالا گیٹ اور مستی گیٹ وغیرہ کو خوب گرمائے اورسجائے رکھا۔ 1970ء ژسے کچھ ہی پہلے کراچی سے مولانا شاہ احمد نورانی نے جمعیتہ علماء پاکستان کی بنیاد رکھی ۔لاہور کے لکشمی چوک سے مولانا عبدالستار نیازی کو جنرل سیکر ٹری بنایا گیااور سنی /بریلوی مکتب فکر کی بنیاد پر اسے عوام میں متعارف کرایا ۔مولانا شاہ احمد نورانی سیاست کے بازار میں"نورانی میاں"کے نام سے زیادہ معروف ہوئے۔قدیم وجدید علوم پر بڑی دسترس تھی۔سیاسی جلسوں میں اپنی تقریر سے قبل ایسی خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کرتے کہ سامعین مسحور ہوجاتے۔اوپر سے مولانا عبدالستارنیازی کی ولولہ انگیز تقاریر اور جگر داری ،پھرسواد اعظم ۔ان سب عناصر سے جو سیاسی قوام تیار ہوا تو جمعیتہ علماء پاکستان ایک قابل ذکر سیاسی جماعت بن گئی۔اور بھی چھوٹی چھوٹی یا علاقائی جماعتیں میدان میں آئیں مگر پٹ گئیں۔قصہ کوتاہ عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی کے علاوہ جتنی بھی سیاسی ومذہبی جماعتیںتھیں ان کے شوخ یاپھیکے رنگوں نے بہاردکھائی تو لاہور یعنی مغربی پاکستان میں۔مشرقی پاکستان میں نہ انہوں نے کوئی سیاسی پلیٹ فارم قائم کئے اورنہ اپنی جماعتوں کا پروگرام آگے بڑھایا۔آپ خود ملاحظہ کریں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اور قیادت کا مرکز لاہور اور سندھ ، مسلم لیگ کونسل کی قیادت کاتعلق مغربی پاکستان اور قیادت کا مرکز لاہور ۔نظام اسلام پارٹی کے مولوی فرید اگرچہ اسمبلی میں رعدکی گونج بن گرجتے رہے مگر صدارت مغربی پاکستان کے چوہدری محمد علی کے پاس اور قیادت کامرکز لاہور ہی رہا یہاں نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ مشرقی پاکستان سے مولانا عبدالحمید خاں بھاشانی تھے۔بڑے گرم دم گفتگو اور پارہ صفت راہنماتھے۔ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک کامیاب کسان کانفرنس منعقد کرکے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے مگر اس جماعت کا ایک دھڑامغربی پاکستان کے خان عبدالولی خاں نے بناکر جملہ حقوق حاصل کرلئے ۔یہی حال حسین شہید سہروردی اور شیخ مجیب الرحمان کی پاکستان عوامی لیگ کا ہوا ۔اور نوابزادہ نصراللہ خاںنے مغربی پاکستان میں بیٹھ کر اس کا بھی ایک دھڑا اپنے نام کرلیا۔