یہ فاصلے ، یہ دْوریاں
آپ ایک نظر عالمی منظر نامے پر ڈالئے جہاں جہاں مسلمان ہیں اْن کے ساتھ کہیں نہ کہیں ظلم وزیادتی ہورہی ہے، پاکستان کی حالت دیگر معاملات میں دگرگوں ہے۔ بھارت میں دیکھ لیجئے مسلمان غیر محفوظ ہیں۔ دوسری طرف کشمیریوں کی حالت ِزار پرساری دْنیا میں افسردگی پائی جاتی ہے۔ مسلمانوں میں جذبہ ہمدردی کشمیریوں کیلئے ہر خطہ میں موجود ہے اگرچہ دیگر ممالک بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیری ظلم و بربریت کا شکار ہیں حتیٰ کہ بھارتی ایوانوں میں خود اْن کے نمائندگا ن اور صحافی اس کو سراسر ظلم وناانصافی قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح قطر، عراق، ایران ، فلسطین کے اپنے اپنے مسائل ہیں، کہیں مصیبتیںان کی اپنی پیداکردہ ہیں تو کہیں غلط اور ناقص پالیسیوں نے مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ تمام اسلامی ممالک کو ایک دوسرے سے دْور کرنا بھی سازش ہے۔ یہ سازش کہاں بیٹھ کر اور کن مقاصد کے لئے کون کر رہا ہے اس سے بھی یقینا" ہم سب باخبر ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر تمام اسلامی ریاستیں آپس میں اتحاد کرجائیں تو ایک بڑی طاقت کے رْوپ میں دْنیا کے نقشے پر نمودار ہوکر بہت سی اور طاقتوں کے لئے خطرہ کا باعث بن سکتی ہیںلہذا اس کے سدِباب کیلئے ضروری تھا کہ ان کو آپس میں متحد ہی نہ ہونے دیا جائے۔ اگرچہ ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی شدید خواہش ہے کہ اسلامی ممالک کو یکجا کرنے کیلئے کوشش کی جائے لیکن انہوں نے کچھ شرپسندوں کی وجہ سے ہی کچھ پہلے کہا تھا کہ اْن کی اسلامی ممالک کو یکجا کرنے کی کوشش مغربی ممالک کو پسند نہیں اور ممکن ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں وہ اْن کو قتل کروا دیں۔ مسلمانوں کے آپس میں تضادات اور دْوری کا اثر براہ راست اْن کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی مفادات پر پڑتا ہے اور ان مفادات کو تحفظ دینے اور مربوط کرنے کیلئے اجتماعی کوششیں انیسویں صدی سے جاری ہیں اور اسلام مخالف قوتیں بھی اْسی وقت سے سرگرم ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ایک طویل ترین جنگ بیت المقدس کی وجہ سے عرصہ دراز سے جاری ہے لیکن حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل اور فلسطین کے دوریاستی فارمولے پر مبنی مشرقِ وسطیٰ میں قیام ِ امن کا منصوبہ ہے جس کے تحت بیت المقدس سمیت وہ تمام فلسطینی علاقے اسرائیل کے مستقل قبضے میں رہیں گے جن پر اس نے1967ئ کی جنگ، اس سے پہلے اور بعد میں امریکی پشت پناہی سے طاقت کے بل پر کنٹرول حاصل کیا تھا۔ اس منصوبے کو فلسطین کی حکومت اور جدوجہد کرنے والی تنظیموں نے رد کردیا تھا اس دورریاستی فارمولے سے متعلق جدہ میں او آئی سی کا اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں ٹرمپ کی"ڈیل آف سینچری" کی شدید مخالفت کی گئی۔ یہ فلسطینی عوام اب تک کی قربانیوں، اْن کے حقوق اور خواہشات کے بھی خلاف ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام مسلمان ممالک ٹرمپ کے اس فارمولے کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی تعاون کریں گے۔ کشمیر کی طرح فلسطین کا معاملہ بھی عرصہ دراز سے التواء کا شکار ہے۔ دونوں کے حوالے سے اب تک کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آرہی۔ اگر خطہ کے تمام مسلمان ملک آپس میں متحد ہوتے تو ایسے مسائل کو حل کرنا قطعا" ناممکن نہیں تھا۔ اپنے ذاتی اختلافات چھوڑ کر ان دو بڑے سینچری ایشوز کی طرف مسلمان ممالک کو پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کبھی مسلمان ممالک اور مسلم کے دوست نہیں ہوسکتے۔ دراصل اسلامی ممالک کے خلاف یہ سلسلہ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں نے مشرقِ وسطیٰ کا بیڑہ غرق کرکے سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا اور شام وعراق اور فلسطین پر اپنا قبضہ جما لیا۔ مزید ستم یہ ہوا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریزوں نے فلسطین میں مقامی آبادی پر ظلم وستم ڈھا کر اسرائیل قائم کردیا جس نے فلسطین کے عوام کی نسل کشی شروع کردی۔ آج بھی امریکہ اسرائیل کو سپورٹ کرتا ہے۔ انہی انگریزوں نے انڈونیشیا، ترکی، عراق، ایران اور پاکستان سمیت کئی دیگر مسلمان ممالک میں آمریت قائم کی۔ ان کو مجبور کرکے اپنے اشاروں پر چلانے کی کوشش کی گئی اور نہ صرف اپنی آمریت ہر جگہ پر قائم کی بلکہ سب کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی آگ بھی بھڑکا دی۔ آج بھی ایران، سعودی عرب، قطر، یمن، لیبیا اور پاکستان بھی ان سازشوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اسرائیل جس کی آبادی بمشکل 91لاکھ ہے لیکن پورے مشرقِ وسطیٰ پر اس نے اپنا تسلط جما رکھا ہے۔ 1967ء میں چند دن کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے ان مسلمان ممالک کا جو حشر کیا اس کے بعد کسی کی اسرائیل سے لڑائی مول لینے کی جرأت تک نہ ہوئی، یہ جنگ جو انہوں نے اپنی عقل ودانش، بہترین حکمت عملی اور جنگی طاقت کے بل بوتے پر جیتی۔ زمانہ طاقتوں کا ساتھ دیتا ہے آپ امریکہ، اسرائیل اور دیگر سپر پاورز کو دیکھ لیجئے۔ طاقت کے کچھ خاص قوانین کو اپنا کر یہ قومیں کہاں سے کہاں جا پہنچیں۔