• news
  • image

کون بنے گا سلطنت ِ دہلی کا سلطان؟

مرزا غالب نے دہلی کے چاندی چوک، بلی ماراں کی تنگ گلیوں میں زندگی گزاری اور غضب کی شاعری کی۔ مرزا غالب کی حویلی کی دیوار پر ایک بورڈ چسپاں ہے۔ جس پر ان کا مشہور شعر لکھا ہوا ہے:
؎ترے وعدے پر جئے ہم، تو یہ جان، جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا؟
یہی شعر سلطنتِ دہلی کی کیندر سرکار یعنی مودی سرکار کے وعدوں، دعوؤں، آرٹیکل 370، بابری مسجد کی بجائے رام مندر کا تعصب انگیز فیصلہ اور CAAکیخلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی عکاسی کرتا ہے۔ 8فروری کو دہلی میں چیف منسٹر کا الیکشن ہونے جارہا ہے۔ اس لحاظ سے دہلی میں سیاسی سرگرمی عروج پر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دہلی کے باشعور عوام الیکشن کے ضمن میں کارکردگی پر بات کرتی ہے۔ بھارت میں دہلی کے چیف منسٹر کے الیکشن میں تین پارٹیاں منظرِ عام پر ہیں۔ پہلی عام آدمی پارٹی، دوسری بی جے پی اور تیسری کانگریس۔ قارئین عام آدمی پارٹی 2013 میں معرضِ وجود میں آئی۔ عام آدی پارٹی کے بانی اروند کجری وال نے 2010 سے 2012 کے دوران دھرنا سیاست کے ذریعے کانگریس کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ 2013 کے الیکشن میں اروند کجری وال نے چیف منسٹر شیلا ڈکشٹ کو چیلنج دیا اور کہا کہ میں آپ کو آپ کی سیٹ سے ہرا کر اپنا لوہا منواؤں گا۔ یہ وہی شیلا ڈکشٹ ہیں جو تین بار چیف منسٹر کے عہدے پر فائز رہ چکی تھیں۔ 2013ء میں اروند کی نئی نویلی پارٹی 70سے 27 نشستیں جیت جاتی ہے۔ پھر ا سکے بعد یاد رہے کہ 2015ء میں عام آدمی پارٹی کو ریکارڈ جیت ملی تھی۔ اب 2020ء میں اروند کجری وال اپنی کارکردگی رپورٹ کی بناء پر دوبارہ الیکشن کے لیے نامزد ہیں۔ دہلی کے عوام اروند کجری وال کے کاموں پر مطمئن ہیں اور نعرہ بلند کر رہے ہیں ’’اچھے بیتے پانچ سال، لگے رہو کیجری وال‘‘۔ 5سالوں میں بہت سی پارٹیز نے سرپرائز کی فضا کو برقرار رکھا اور عین موقع پر Key Candidate کو میدان میں اتارا لیکن اس سے قبل بڑے بڑے نام ہوا میں اچھالے گئے۔ میڈیا سے لیکر دہلی کی گلیاں تک ان ناموں پر اپنا تجزیہ پیش کرتی رہیں۔ مثال کے طور پر کپل مشرا کو بی جی پی سے ٹکٹ دیا گیا، ہر دیپ پوری کا نام بھی زبان زدِ عام رہا۔ کانگریس نے لتیکا ڈکشٹ کے نام کو آگے کیا۔ بی جے پی کے حوالے سے باسری سوراج کا نام بھی گردش کرتا رہا لیکن ان میں سے کسی نے اروند کجری وال سے براہِ راست ٹکر لینے سے انکار کر دیا کیوں کہ ان کو یہ محسوس ہوا ہوگا کہ اگر ہم مقابلہ میں آئے تو ہار کا یقینی دھبہ لگوا کا جائیں گے۔ اس لیے بڑے بڑے سیاسی نام سامنے نہیں آئے۔ بالآخر اعصاب شکن انتظار کے بعد بی جے پی نے سنیل یادیو اور کانگریس نے رومیش سبھروال کو اس دنگل میں اتارا۔ میرے نزدیک یہ مقابلہ بہت غیر دلچسپ ہوگا کیونکہ پلڑے کے اُمیدوار اروند کیجری وال سے براہِ راست ٹکر نہیں لے رہے۔
وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ بی جے پی اور کانگرس کا گراؤنڈ ورک اور ہوم ورک عام آدمی پارٹی سے بہت پیچھے ہے۔ اب تو محض اس بات پر ساری توجہ مرکوز ہے کہ کیا عام آدمی پارٹی 66نشستوں کے ریکارڈ کو توڑے گی؟ یا برقرار رکھے گی یا کم ہو جائے گی۔صورتحال یہ ہے کہ دہلی کی سیاست شاہین باغ کے گرد سمٹ کر رہ گئی ہے۔ ’’شاہین باغ‘‘ میں ہونے والے CAA کے خلاف مظاہروں کو عام آدمی پارٹی اور کانگریس سے جوڑا جا رہا ہے کیونکہ صاف پانی، سستی بجلی کی فراہمی، سرکاری سکولوں کی بہتری، عورتوں کے لیے مفت ٹرانسپورٹ دینے کا جواب بی جے پی کے پاس نہیں ہے۔ مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ امیت شاہ ان مظاہروں میں احتجاج کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہیں بقول بی جے پی ’’جو بات راہول گاندھی کہتا ہے کجری وال اگلے دن وہی بات دھراتا ہے اور پھر سرحد پار پاکستان سے وہی آواز آتی ہے۔ اب ہماری جنتا بتائے کہ ان تینوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟‘‘ قارئین! اگر شاہین باغ پر ہونے والے مظاہرے زور پکڑتے ہیں تو اس میں بی جے پی کی حمایت کا گراف اوپر آجائے گا جیسا کہ اس کا عملی مظاہرہ جعلی ایئر سٹرائیک میں دیکھا گیا۔ المختصر یہ کہ بی جے پی کے لیے دہلی کی سیٹ ایک اہم معرکہ بن چکا ہے کیونکہ 21سال کے بعد بھی اگر دہلی میں واپسی نہ ہوئی تو شاہین باغ میں ہونے والا احتجاج ملک گیر صورت اختیار کر سکتا ہے۔ 11فروری کو عوامی نتیجہ واضح کر دے گا کہ کون سلطنتِ دہلی کا سلطان بنے گا…؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن