سپریم اور ہائیکورٹ ججز کی ریٹائرمنٹ عمر 70 سال ہونی چاہئے، دعا ہے عمران ڈلیور کریں: فروغ نسیم
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر ڈاکٹرمحمد فروغ نسیم نے کہا ہے کہپاکستان میںاعلیٰ عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بہت کم ہے اس کو آگے ہونا چاہئے تاہم پاکستان کا آئین ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا اور اس کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔ ہماری دعا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان ڈلیور کریں اور مجھے لگتا ہے کہ ڈلیور کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار فروغ نسیم نے اپنے ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمرکا امریکہ اور برطانیہ سے موازنہ کیا جائے تو یہ بہت کم عمر ہے اور امریکہ اور برطانیہ میں تو ججز 90 اور 100سال تک خدمات انجام دیتے ہیں، پاکستان میںاعلیٰ عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بہت کم ہے اس کو آگے ہونا چاہئے، سپریم کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65سال ہے اسے 68 یا 70سال ہونا چاہئے۔ اگر سپریم کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 70مقررہوتی ہے تو ہائی کورٹ کے جج کی عمر67سال کر دیں یا دونوں کی عمریں68یا 70سال کر دیں، فی الحال وزارت قانون کے پاس اس قسم کی قانونی سازی کی کوئی تجویز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب متحدہ قومی مووومنٹ پاکستان، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں شامل ہوئی تو اس وقت دو وزارتوں کا کوٹہ ایم کیو ایم پاکستان کو دیا گیا اور ایم کیوایم پاکستان کی ترجیح وزارت قانو ن و انصاف لینا نہیں تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں فروٖ غ نسیم آپ کو وزیر قانون لگانا چاہتا ہوں۔ میں نے خالد مقبول صدیقی سے بات کی اس پر خالد بھائی نے کہا کہ آپ یہ بالکل قبول کر لیں تاہم یہ واضح ہونا چاہئے کہ یہ ایم کیو ایم پاکستان کا کوٹہ نہیں لیکن آپ ایسا بالکل کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی اور حیدرآباد کو اپنی کالونی بنا لیا ہے۔ مجھے ٹی وی سے بھی پتہ چلا اور خالد بھائی اور دیگر ایم کیو ایم پاکستان کے دوستوں نے بتایا کہ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور پی پی پی کی جانب سے ایم کیوایم پاکستان کو سندھ حکومت میں شامل ہونے کی پیشکش کی ہے، تاہم بدقسمتی سے شہری سندھ کے ساتھ پی پی پی کا رویہ بڑا متعصبانہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں پی پی پی کی شکل اور ہے اور وہ ایک اچھی پارٹی ہے اور اس میں اچھے اور لبرل لوگ ہیں اور وہ بالکل تعصب پر یقین نہیں رکھتے جن میں اعتزار احسن، قمرزمان کائرہ، راجہ پرویز اشرف اور عبدالرحمان ملک شامل ہیں، ذاتی سطح پر پی پی پی والے سندھ میں بڑے اچھے ہیں لیکن بحیثیت ایک جماعت کے پی پی پی سندھ میں ایک متعصب جماعت ہے۔ سندھ کی ترقی نہیں ہو سکے گی، سندھ کو اس بات سے نکلنا پڑے گا کہ سندھی کون ہے، مہاجر کون ہے، پنجابی کون ہے اور پٹھان کون ہے اس سے نکلنا پڑے گا۔ جب بھی انتخابات ہوں گے ووٹرز ایم کیو ایم پاکستان کو بھر پور کامیابی سے ہمکنارکروائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایم کیو ایم پاکستان سندھ حکومت میں شامل ہوتی ہے تو کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے لوگ اس کو ناپسند کریں گے اور میرا نہیں خیال کہ ایم کیوایم پاکستان سندھ حکومت میں شامل ہو گی یہاں تک کہ پیپلز پارٹی یہ دکھائے کہ ہم نے تعصب چھوڑ دیا ہے، چلیں پہلے متعصب تھے آج تعصب چھوڑ دیں او ر تما م نوکریاں اس طرح دیں کہ ہم ایک ہیں اور الگ نہیں ہیں تو بات دوسری ہے۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کراچی کے عوام کے فائدہ کے لئے وزارت چھوڑی اور وزیر اعظم عمران خان سے کہا کہ آپ یہ، یہ کریں اور عمران خان اور گورنر سندھ عمران اسماعیل اس کو کر رہے ہیں۔