• news

قومی اسمبلی: ہنگامہ، عمر ایوب کا گھیرائو، پی پی ، حکومتی ارکان گتھم گتھا

اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) قومی اسمبلی میںدوسرے روز بھی ہنگائی آرائی ہوگئی۔ گزشتہ روز اجلاس میں وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری کو مسٹر 10" پرسنٹ" کہنے پر پیپلز پارٹی کے ارکان طیش میں آگئے اور شدید ہنگامہ کیا اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ ڈپٹی سپیکرکو اجلاس ملتوی کرنا پڑ گیا۔ پیپلز پارٹی ارکان نے عمر ایوب کی نشست کا گھیراؤ کیا اور سابق صدر ایوب خان کے خلاف نعرے لگائے۔ پیپلز پارٹی ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں، سید نوید قمر اور آغا رفیع اللہ وفاقی وزیر کی طرف لپکے تو فواد چوہدری اور حماد اظہر نے انہیں روک لیا۔ آغا رفیع اللہ پی ٹی آئی کے ملک انور تاج سے گتھم گتھا ہو گئے۔ بلاول بھٹوزرادری نے کہا کہ یہ پہلے مشرف کی چمچا گیری کرتا رہا پھر نواز شریف کی اور آج نیازی کی خوشامد کر رہا ہے۔ عمر ایوب نے کہا کہ میں نے تو کسی کا نام نہیں لیا جس پر پیپلز پارٹی اراکین نے ایوب ڈکٹیٹر مردہ باد کے نعرے بھی لگائے۔ ڈپٹی سپیکر نے عمر ایوب کا مائیک بند کر دیا اور انہیں واقعہ پورا نہ کرنے دیا۔ ڈپٹی سپیکر مسلسل ارکان کو گتھم گتھا نہ ہونے کی ہدایت کرتے رہے مگر کسی نے انکی بات نہ سنی جس پر ڈپٹی اسپیکر کو اجلاس کی کارروائی 10 منٹ کیلئے معطل کرنا پڑی۔ عمر ایوب خان نے کہا کہ لاڑکانہ میں کتے کاٹ رہے ہیں ان کے پاس انجیکشن نہیں، لاڑکانہ میں ایڈز پھیل رہا ہے، ماضی کی حکومتوں نے وہ ایندھن ڈالا جس سے مہنگائی آسمان پرگئی، مہنگی بجلی کا ہمارے گلے میں پھندا ڈال کر فرار ہوگئے، مسلم لیگ (ن) نے 5سال میں 101فیصد زیادہ نوٹ چھاپے جس کا خمیازہ آج ہماری حکومت بھگت رہی ہے۔ بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں ملکی معاشی صورتحال پر بحث مسلسل دوسرے روز بھی جاری رہی۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان نے کہا کہ مشیر خزانہ نے دلائل کے ساتھ ایوان میں بات کی اور حقائق قوم کے سامنے رکھے، مگر اپوزیشن کی جانب سے کوئی بھی بات دلائل سے نہیں کی گئی۔ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومتوں میں آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہنگائی تھی، مگر آج یہ مگرمچھ کے آنسو رو رہے ہیں، مسلم لیگ (ن) نے 5سال میں101فیصد زیادہ نوٹ چھاپے جس کا خمیازہ آج ہماری حکومت بھگت رہی ہے، 124ارب ڈالر صرف روپے کی قدر برقرار رکھنے میں اڑا دیئے، اپوزیشن کے لوگ اپنی حکومتوں کے اختتام پر دعا کرتے تھے کہ ان کی دوبارہ حکومت نہ آئے کیونکہ ان کو پتا تھا کہ ہم نے معیشت کو تباہ کر دیا، ان لوگوں نے جو معاہدے کئے اس کا خمیازہ لوگ آج مہنگائی کی صورت میں بھگت رہے ہیں، 14ارب ڈالر صرف بجلی پیدا کرنے کیلئے گیس اور آئل کی مد میں بیرون ملک جاتا ہے، رینٹل پاور منصوبے میں 55روپے فی یونٹ بجلی پیدا کی گئی، ساڑھے 6 روپے فی یونٹ بجلی ساڑھے17 روپے پر پہنچا دی گئی، مہنگی بجلی کا ہمارے گلے میں پھندا ڈال کر فرار ہوگئے۔ مسلم لیگ (ن) نے سولر بجلی کی بجائے ایل این جی منصوبے ہم پر نازل کئے۔ متبادل ذرائع سے توانائی کے منصوبے ان لوگوں نے ختم کر دیئے کیونکہ انہوں نے اپنوں کو نوازنا تھا، ان کو ڈر اس لئے ہے کہ اب ہم بجلی کی قیمت میں استقامت لا رہے ہیں، عمران خان کی وژن کے مطابق بجلی کی قیمتیں نیچے لائیں گے، ہم 260 ارب سے زائد سبسڈی دے رہے ہیں، زراعت کو سبسڈی 83 سو ارب کے قریب بنتی ہے، یہ کانپ رہے ہیں کہ حکومت کامیاب ہوتی جا رہی ہے۔ الیکشن سے قبل مسلم لیگ ن نے چوری والے علاقوں میں کھل کر بجلی دی اور ایک سال میں گردشی قرضہ 438ارب بڑھا، پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت نے 15000 ارب روپے تک قرضہ چھوڑا،مسلم لیگ ن 30 ہزار ارب روپے تک قرضہ لے گئی، 2025تک ہم 8ہزار اور 2030تک متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کریں گے، ایگریکلچر پر 50ارب کی بجلی پر سبسڈیز دے رہے ہیں، جو چیز یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہ ہم کر رہے ہیں، ماضی کی حکومتوں نے وہ ایندھن ڈالا جس سے مہنگائی آسمان پرگئی۔انہوں نے کہا کہ لاڑکانہ میں کتے کاٹ رہے ہیں ان کے پاس انجیکشن نہیں، لاڑکانہ میں ایڈز پھیل رہا ہے۔ انہوں نے آصف زرداری کا نام لئے بغیر کہا کہ ایک شخص ہے جس کو مسٹر 10پرسنٹ کہتے تھے، ان کو باہر دورے پر کسی نے بلایا، وہ باہر دورے پر گھومتے پھرتے گئے ،تو ایک لیڈر نے کہا کہ سامنے پل دیکھ لو، تو اس نے کہا کونسا پل۔ اس دوران بلاول بھٹو زرادری اپنی نشست پر کھڑے ہو گئے اور احتجاج کیا اور کہا کہ یہ پہلے مشرف کی چمچا گیری کرتا رہا پھر نواز شریف کی اور آج نیازی کی خوشامد کر رہا ہے۔ عمر ایوب نے کہا کہ میں نے تو کسی کا نام نہیں لیا جس پر پیپلز پارٹی اراکین نے ایوب ڈکٹیٹر مردہ باد کے نعرے بھی لگانے لگے۔ ڈپٹی سپیکر نے عمر ایوب کا مائیک بند کر دیا اور انہیں واقعہ پورا نہ کرنے دیا۔ پیپلز پارٹی ارکان نے سپیکر آفس میں بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ بعد ازاں اجلاس آج صبح گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اگر یہ حکومت 5 سال پورے کر گئی تو پاکستان کا قرضہ دوگنا ہو جائے گا، باقر رضا اور حفیظ شیخ کی حب الوطنی پر شک نہیں، یہ افراد ہاؤس کے فلور پر کھڑے ہو کر کہہ دیں کہ ہم 10 سال تک ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گے، ہمیں حب الوطنی کا سبق نہ دیں، تمام وزراء اتنے ایکسپرٹ ہیں ہر وزیر دوسرے کے کام کا ایکسپرٹ ہے، ایک قطار ہے پڑھے لکھے ایکسپرٹ کی لیکن اتنے ٹیلنٹڈ لوگوں سے ملک نہیں چل رہا، وفاقی وزراء جارج آر ویل کی کتاب ''اینیمل فارم" ضرور پڑھ لیں، مشیر خزانہ نے سب باتیں کیں لیکن آٹے اور چینی کی قیمتوں کا ذکر کرنا بھول گئے، آٹے اور چینی کی مد میں روزانہ 2ارب روپے عوام سے اضافی وصول کئے جا رہے ہیں، سپیکر صاحب ہمت کریں تحقیقات کیلئے کمیٹی بنائیں، حکومت نے اگر 5 ہزار ارب قرضہ واپس کیا ہے تو 12 ہزار ارب روپے کا قرض لیا بھی ہے اسکا کیا جواب ہے،ا ٓئین کے مطابق بجلی اور گیس کے معاملات صوبوں کے حوالے کر دیں، ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ، حکومت ہوش کے ناخن لے، باتوں سے یہ مسائل حل نہیں ہو سکتے حقائق بہت تلخ ہیں ۔بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں ملکی معاشی صورتحال پر بحث مسلسل دوسرے روز بھی جاری رہی۔ اجلاس میں مشیر خزانہ کی تقریر پر ردعمل دیتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مشیر خزانہ نے بہت خوش کن اعداد و شمار سامنے رکھے، حکومت ملکی معیشت کی جو تصویر دکھا رہی ہے عوام اس سے بے خبر تھی، اب میں اپنے حلقے کے عوام سے کہوں گا کہ موڈیز کی رپورٹ پڑھ لیا کریں اور پرائمری سرپلس کھا لیا کریں، وزیر خزانہ نے سب باتیں کیں لیکن آٹے اور چینی کی قیمتوں کا ذکر کرنا بھول گئے، 2018 میں آٹا 40 روپے تھا اور آج 70 روپے فی کلو مل رہا ہے، چینی 53 روپے تھی جو آج 70 روپے مل رہی ہے، کون اس کا جواب دے گا، حکومت کے پاس چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی جواب نہیں، ان وزرا کی تقاریر سن لیں، کیا اس طرح ملک چلے گا۔ انہوں نے مہنگائی کے معاملے پر حکومت کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ عوام سڑکوں پر نکل آئے تو جگہ نہیں ملے گی ۔ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، جب لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ ایک وزیر نے بیان دیا کہ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے آٹے کا بحران پیدا ہوا،پوری کابینہ میں صرف ایک خاتون وزیر نے کام کیا ہے، وزیر نے اسلام آباد سے پلاسٹک شاپنگ بیگ ختم کیے، باقی وزراء کی کارکردگی دکھا دیں، فواد چودھری ہمیں چاند پر لے کر جائیں گے، ہم اس کا انتظار کر رہے ہیں۔وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے شاہد خاقان عباسی بولے کہ وزیراعظم نے کہا کہ آٹے کا بحران مافیاز نے پیدا کیا، یہ فرما کر وہ اپنی معمولی سی غلطی کو ٹھیک کرنے کے لیے کوالا لمپور چلے گئے اور ان کے دورے کا خرچہ دوستوں نے ادا کیا، واپس آکر انہوں نے کہا کہ بحران کی وجہ سرمایہ دار طبقہ ہے لہذا ملک بھر میں چھوٹے دکانداروں کے لیے 50 ہزار دکانیں بنائی جائیں گی جنھیں 5، 5 لاکھ روپے دیئے جائیں گے جو تقریباً 35 ارب روپے بنتے ہیں۔شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ وزیراعظم کے اعلان کے حساب سے 200 دکانیں فی قومی اسمبلی حلقہ بنتی ہیں، اس سے یہ سارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔کیا یہ مافیا وہی لوگ نہیں ہیں جو وزیراعظم کے اخراجات اٹھاتے ہیں، اللہ کرے کہ ایسا نا ہو۔ سپیکر صاحب میری گزارش ہے کہ تھوڑی ہمت کریں اور پہلی جنوری سے اب تک 60 ارب روپے کا جو ڈاکا پڑ چکا ہے، اس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دیدیں۔آج پھر کہتا ہوں ایک کمیٹی بنا دیں میں اس میں پیش ہوجاتا ہوں ،توانائی کا مسئلہ حل کر دوں گا۔
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز + صباح نیوز) وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ اگر ہم نے صحیح اقدامات نہیں اٹھائے تو ہم بھی ناکام ہو جائیں گے۔ یہ اس ملک کیلئے بڑا چیلنج ہے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے قومی اسمبلی میں مہنگائی اور اقتصادی صورتحال سے متعلق پالیسی بیان دیتے کہا بڑی حقیقت یہ ہے کہ 72 سال میں اس ملک کا ایک بھی وزیراعظم اپنی مدت مکمل نہیں کر سکا اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سب سے زیادہ عرصے تک اس عہدے پر رہے۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ جب ہم استحکام کی بات کرتے ہیں تو کچھ چیزوں کو نظر میں بھی رکھنا چاہئے۔ حفیظ شیخ نے کہا کہ ایسے کوئی ملک نہیں ہو سکتے کہ لوگ ترقی پذیر ہوں اور ممالک ترقی یافتہ ہوں‘ ایسا کوئی ملک نہیں کہ لوگ پڑھے لکھے نہ ہوں‘ ان کے پاس ہنر نہ ہو‘ انہیں نظرانداز کیا جائے اور ملک ترقی کر جائے۔ اگر ہم نے آگے جانا ہے اور ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کھڑے ہونا ہے تو ہم اپنے لوگوں پر دھیان دیں۔ انہوں نے کہا کہ حقائق میں تیسری بات یہ ہے کہ پاکستان 72 برس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ مشیرخزانہ نے کہا کہ 72 سال میں پاکستان ٹیکس وصولی میں اچھے سے کامیاب نہیں ہو سکا۔ ہم ہمیشہ خوددار ملک ہوتے ہوئے دوسرے ممالک پر انحصار کرتے رہے۔ اس ملک میں ایسے دور آئے کہ ترقی کی رفتار میں تیزی آئی‘ لیکن رفتار 3 سے 4 برس تک مسلسل نہیں چل سکی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا جو بحران ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ڈالرز نہیں ہیں اور ہم نے قرض بھی ڈالرز ہی میں لئے ہیں اور ہم ڈالرز ختم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ 5 برس میں برآمدات صفر فیصد رہیں اور ڈالر کو سستا رکھا گیا۔ ہمارے معیشت کی صنعتکاری پر اثر پڑا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر ہمیں سوچنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ چیلنج اس حکومت کیلئے بھی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ اگر ہم نے صحیح اقدامات نہیں کئے تو ہم بھی ناکام ہو جائیں گے۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ میرے خیال میں اس ملک کا توانائی سیکٹر پاکستان کیلئے ترقی کا باعث بن سکتا ہے اور ہم بطور ملک اس مسئلے کو حل کرنے میں مسلسل کرنے میں ناکام ہیں اور یہ مسئلہ گردشی قرضوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ ڈالرز ختم ہو چکے تھے اور کوئی قرض دینے کو بھی تیار نہیں تھا۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ یہ چیز اہم تھی کہ آئی ایم ایف کے پاس جائیں۔ آئی ایم ایف کے بارے میں بہت تقریریں ہوئیں۔ جذبات کا اظہار بھی ہوا۔ میں فقط یہی کہوں گا کہ 2008ء میں جو حکومت بھی آئی وہ آئی ایم ایف کے پاس گئی اور 2013ء میں جو حکومت آئی وہ بھی آئی ایم ایف کے پاس گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ لوگ جو خود جا چکے ہوں وہ دوسرے کو اسی چیز پر تنقید کریں۔ حفیظ شیخ نے کہا کہ یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے کہ ترقی کی رفتار ایسی نہیں ہوتی کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں۔ آئی ایم ایف کوئی بھی خوشی سے نہیں جاتا چاہے کہ پچھلی حکومتیں ہوں یا موجودہ حکومت۔ حالات مجبور کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو رضا باقر پر فخر ہونا چاہئے۔ وہ لاہور سے پڑھے، اپنی قابلیت کی وجہ سے آئی ایم ایف میں تعینات ہوئے وہاں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی ایم این اے کا بندہ ہے تونوکری مل جائے۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ جو لوگ آئی ایم ایف کے کاریڈورز میں نہیں جا سکتے وہ آئی ایم ایف کے بڑے بڑے لوگوں پر تنقید کر رہے ہیں تو یہ بھی سن لیں کہ رضا باقر نے آئی ایم ایف سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہوں نے اپنی نوکری کو ٹھکرایا کیونکہ وہ پاکستان کے لئے کام کرنا چاہتے تھے۔ ایک بڑا فیصلہ تھا کہ فوج کے بجٹ کو فریز کیا جائے۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ کیا ایسا فیصلہ کسی نے پہلے کیا ہے؟ سویلین حکومت کے بجٹ میں 40 ارب روپے کمی کا فیصلہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم، صدر، کابینہ اراکین کی تنخواہوں میں کمی کی گئی۔ جنرلز اور سیکرٹریز کی تنخواہوں کو برقرار رکھا گیا۔ یہ بڑے فیصلے ہیں میں بہت حکومتوں کا حصہ رہا ہوں کوئی ایسے فیصلے نہیں کرتا تھا۔ عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا اپوزیشن خود آئی ایم ایف کے پاس گئی اور اب ہم پر تنقید کر رہی ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے ڈالر کو مصنوعی سستا رکھ کر عوام کو ٹوتھ پیسٹ تک امپورٹڈ استعمال کروایا۔ مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن صبر کے ساتھ 2023 ء کے انتخابات کا انتظار کرے۔ پڑھے لکھے لوگوں کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کھڑے ہونا ہے تو اپنے لوگوں پر دھیان دینا ہو گا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ملک میں تمام مسائل کی جڑ 30 ٹریلین کا قرض ہے۔ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ پاکستان کا بحران یہ ہے کہ ہمارے پاس ڈالرز نہیں ہیں۔ ہم نے قرضہ بھی 95 ارب ڈالرز میں ہی لیا تھا۔ برآمدات ہی ڈالرز کمانے کا واحد ذریعہ ہے۔ ڈالر مصنوعی سستا رکھنے سے ہمارے برآمد کنندگان متاثر ہوئے۔ اس سال نان ٹیکس ریونیو کا ٹارگٹ 11 سو ارب روپے ہے، ہم اس سال نان ٹیکس ریونیو سے 15 سو ارب روپے حاصل کر لیں گے۔ حکومت نے مزید کوئی قرضہ نہیں لیا، قرض میں اضافہ ڈالر مہنگا ہونے سے ہوا۔ انہوں نے عوام سے درخواست کی کہ یوٹیلیٹی سٹورز پر جائیں اور فائدہ اٹھائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ چند ماہ میں مزید دو ہزار یوٹیلیٹی سٹورز کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں انتہائی غریب افراد کو پچیس فیصد رعایتی نرخوں کے راشن کارڈز دیئے جائیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن