پتھرائی ہوئی بھیڑ سے ہوں محوِ کلام
کئی دفعہ عرض کر چکا کہ حتی الوسع عمومی طور پر اور کالم لکھتے وقت خاص کر راقم کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ حتی الامکان اتنی دیر تک نہ کبھی وہ کوئی ایسی بات کرے اور نہ کبھی کسی ایسی چیز کا حوالہ دے جب تک اس بات یا اس چیز کی صحت کے بارے بذات خود وہ باضابطہ طور پر یہ تحقیق اور تصدیق نہ کر لے اور اپنے تئیں مطمئن نہ ہو جائے کہ وہ جو بات کرنے چلا ہے یا جسکا حوالہ دے رہا ہے اس میں کتنی حقیقت اور صداقت پائی جاتی ہے اور کیا وہ اس قابل بھی ہے کہ اسکا ذکر یا نشاندہی کی جائے۔ آج جن تین پوسٹوں کو جو کہ سوشل میڈیا پر میری نظر سے گزری ہیں اور جنہیں راقم منقول کرنے چلا ہے اْن میں اولذکر جس واقعہ کو بیان کرنے چلا ہوں وہ مذہبی طور پر انتہائی اہمیت کا نازک اور حساس معاملہ ہے اس لئے معتبر حوالوں سے اسکی تصدیق بارے صرف اتنا بیان کر سکتا ہوں کہ کچھ دوستوں نے اس روایت کو عبداللہ ابن عباس صحابی رسول جو کہ اپنے علم اور احادیث کو اکٹھا کرنے میں کافی شہرت رکھتے ہیں اْن سے منسوب کیا ہے اسکے علاوہ کسی اور کتابی یا دستاویزی حوالے سے اسکی تصدیق نہیں ہو سکی۔ حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے حوارین ایک دن حضرت عیسیٰ سے درخواست گزار ہوئے کہ کیا اچھا ہوتا کہ اپ حضرت نوح کے زمانے کے کسی ایسے شخص کو زندہ کرتے جو ہمیں کشتی نوح کے بارے میں بتاتا۔ روائت کے مطابق حضرت عیسی نے مٹی کے ڈھیر میں سے مٹی اْٹھائی اور بتایا کہ یہ حضرت نوح کے زمانے کی مٹی ہے اور پھر اس مٹی پر لاٹھی ماری جس سے ایک بوڑھا شخص اْٹھ کھڑا ہوا اور بتانے لگا کہ کشتی نوح بارہ سو گز لمبی اور چھ سو گز چوڑی تھی جسکی تین منزلیں تھیں پہلی منزل پر حضرت نوح اور جانور تھے دوسری پر انسان اور تیسری پر پرند تھے۔ حضرت نوح کشتی پر جانوروں کی غلاظت اکٹھی ہونے کی وجہ سے خاصے پریشان تھے کہ اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ آپ ہاتھی کی دْم کو کھینچیں۔ چنانچہ حضرت نوح نے جب ہاتھی کہ دم کھنچی تو اسکے نتھنوں میں سے نر اور مادہ دو خنزیر پیدا ہوئے جو فورا گندگی کی طرف لپکے اور تمام غلاظت ہڑپ کر گئے جس کی وجہ سے اللہ نے اس جانور کا گوشت حرام قرار دیتے ہوئے اسے نجس قرار دیدیا۔ یہ تو تھا پہلا قصہ اب آتے ہیں دوسرے قصے کی طرف۔ پوسٹ کیمطابق کچھ دِنوں پہلے ایک قصائی کْتے کا گوشت فروخت کرنے کے جْرم میں گرفتار ہوگیا. جب اْسے جج صاحب کے سامنے پیش کیا گیا، تو جج نے پْوچھا : تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اِنسانوں کو کتْوں کا گوشت کھلاتے ہو؟ مْلزم : نہیں جناب میں اِنسانوں کو کْتوں کا گوشت نہیں کِھلاتا. جج : کیا مطلب ابھی تو تْم نے خْود اِقرار کیا؟ مْلزم : ہاں جناب میں نے اِقرار کیا کہ میرے پاس سے کْتے کا گوشت پکڑا گیا ہے، لیکن وہ گوشت میں نے کسی اِنسان کو نہیں کھلایا... جج : تو پھر وہ گوشت کس کو کھلایا؟ مْلزم : مطلب یہ ہے جج صاحب کہ میرے پاس ہمارے ضلع کے بڑے بڑے افسران۔ سیاستدانوں کے چیلے اور مفت خورے آتے تھے اور مْفت میں چھوٹا گوشت لیکر جاتے تھے، اور نہ دینے پر جْرمانہ کرنے کی دھمکیاں دیتے تھے۔ مجھے فائدے کے بجائے اْلٹا نْقصان ہوجاتا تھا. اِس لئے میں کْتا کاٹ کرکے رکھتا تھا، جب وہ لوگ مْجھ سے مْفت کا گوشت لینے آتے، تو میں اْن کو وہ گوشت دے دیتا تھا۔ تیسری پوسٹ کیمطابق کسی تاجر کے ہاں کسی سرکاری محکمے کے لوگ جانچ پڑتال کیلئے گئے ہوئے تھے۔ تاجر نے انکی آؤ بھگت کیلئے کافی لوازمات کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ کھاتے چیک کرتے وقت ایک اہلکار نے نوٹ کیا کہ تاجر نے ایک جگہ لکھا ہوا تھا جانوروں کا کھانا اور آگے اچھی خاصی رقم درج کی ہوئی تھی جس پر اہلکار نے پوچھا کہ یہ جانور کونسے ہیں۔ دوکاندار بولا صاحب کْتے۔ یہ سن کر وہ اہلکار اپنے دوسرے ساتھی سے بولا کہ دیکھو کتنا محتاط اور کنجوس ہے کہ جانوروں کے کھانے تک کا حساب کتاب رکھتا ہے۔ شام کو جب اہلکار چلے گئے تو دوکاندار نے اْس روز کا کھاتہ کھولا اور اہلکاروں کے اہتمام پر جتنا خرچہ ہوا تھا اسکے آگے لکھا آج کتوں کے کھانے کا خرچہ وہ الگ بات ہے کہ ہو سکتا ہے یہ کوئی پرانے زمانوں کا دوکاندار ہو کیونکہ آجکل تو بزنس مین ایسے خرچوں کو انٹرٹینمنٹ لکھتے ہیں اور اس میں وہ کچھ شامل ہوتا ہے کہ لکھتے روح کانپ اْٹھے۔ ان تینوں پوسٹوں کو correlate کر کے راقم نہ تو کوئی تبصرہ کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی کوئی نتیجہ آخذ کرنا چاہتا ہے کیونکہ اتنا پاکباز شائد وہ بھی نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ فی زمانہ اپنے دامن کو بچائے رکھنا صرف ولیوں کا ہی شیوہ ہے لیکن اسکا یہ بھی ایمان ہے کہ جس رَب نے غلاظت کھانے پر خنزیر کو نجس قرار دیا ہے وہ اتنا رحیم اور کریم ہے کہ اس نے اس ضمن اپنے انسانوں کیلئے دو دروازے کھلے رکھ چھوڑے ہیں ایک توبہ اور دوسرا کفارہ۔ بس سمجھنے والوں کیلئے یہی کافی ہے کہ بیشک اللہ رحم والا اور معاف کرنیوالا ہے۔