ترکی کیساتھ دفاع سیمت ئی شعبوں میں تعاون بڑھانے کی گنجائش ہے: خورشید قصوری
لاہور (نیوز رپورٹر) پاکستان اور ترک عوام کی دوستی و محبت کی جڑیں تاریخ میں بڑی گہری پیوست ہیں۔ پاکستان اور ترکی نے ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ مسلمانان برصغیر نے سلطنت عثمانیہ کو بچانے کیلئے چلائی گئی تحریک خلافت کے دوران بڑی قربانیاں دیں۔ ہر ریاست بین الاقوامی معاملات کو ڈیل کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے مفاد کو مقدم رکھتی ہے۔ اگر ترکوں نے ہماری مدد کی تو ہم نے بھی دوستی کا حق ادا کیا ہے۔ رجب طیب اردگان نے ترک قوم کو یورپ کی انکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا سلیقہ سیکھایا۔ ان خیالات کااظہار سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان ، لاہور میں ترک صدر رجب طیب اردگان کے ولولہ انگیز خطاب کے تناظر میںمنعقدہ فکری نشست بعنوان ’’ پاک ترک تعلقات… ماضی ‘ حال اور مستقبل‘‘ سے اپنے کلیدی خطاب میں کیا ۔ نشست کا اہتمام نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ اس موقع پر ممتاز سیاسی و سماجی رہنما بیگم مہناز رفیع، فرخ سہیل گوئندی، بیگم خالدہ جمیل، کرنل(ر) زیڈ آئی فرخ، بریگیڈیئر(ر) لیاقت علی طور، پیر سید نوبہار شاہ، عامر کمال صوفی، احمر تاثیر انور، نواب برکات محمود، اساتذہ کرام سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔ نشست کے باقاعدہ آغاز پر محمد بلال ساحل نے تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبولؐ سنانے کی سعادت حاصل کی۔ نظامت کے فرائض سیکرٹری نظریۂ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید نے انجام دیئے۔ خورشید محمود قصوری نے کہا ہمیں ترکی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پراجیکٹس شروع کرنے چاہئیں۔ دفاع سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کی گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہرریاست بین الاقوامی معاملات کو ڈیل کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے مفاد کو مقدم رکھتی ہے۔ وسط ایشیاء سے آئے ترک النسل لوگ برصغیر میں حکمران رہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت بری حالت میں ہے اور ہم لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے رکھتے ہیں تو ایسے میں آپ کی عزت کون کرے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن کی پالیسی نے ملکی معیشت کو تباہ کر دیا۔ ہمیں آزاد خارجہ پالیسی کیلئے اپنی معیشت کو مضبوط بنانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ترکی میں 1998ء میں جب زلزلہ آیا تو پاکستان نے امدادی سامان کی بڑی کھیپ وہاں بھیجی، اسی طرح جب 2005ء میں پاکستان میں زلزلہ آیا تو ترکوں نے ہماری بہت مدد کی۔ ترکی ہمیں مغربی اتحادوں میں لیکر گیا۔ ممتاز دانشور فرخ سہیل گوئندی نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کے تعلقات 1947ء میں ہی قائم ہو گئے تھے۔ یحییٰ کمال پاکستان میں ترکی کے پہلے سفیر تھے۔ ہمارے ترکی کے ساتھ تعلقات کی بنیاد تاریخی بھی ہے اور مذہبی و روحانی بھی۔ مسلمانان برصغیر نے تحریک خلافت کے دوران فنڈز جمع کر کے ترکی بھیجے ، ترکی نے اس رقم سے پہلا بینک اور پہلی ترک اسمبلی قائم کی تھی۔ ترکوں نے ہمیشہ پاکستان سے دوستی نبھائی ہے۔ پاکستان اور ترکی کے مابین باہمی تجارت کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ شاہد رشید نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان دیرینہ خوشگوار تعلقات مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں۔ دونوں ممالک نے آزمائش کی ہر گھڑی میں ایکدوسرے کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان کو امت مسلمہ میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ مسلم امہ کو درپیش ہر اہم مسئلہ پر انہوں نے جراتمندانہ موقف اپنایا ہے جسے عالم اسلام قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔