ایف بی آر افسران لائن، پاسورڈ سے جو کھیل کھیلتے معلوم ہیں: چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے ایف بی آر کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے والی کمپنی سے کنٹریکٹ کی تفصیلات طلب کر لیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ من پسند افراد کو کمپنی میں نوازنے پر تشویش ہے۔ کمپنیوں میں تقرریوں کا طریقہ کار شفاف ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انتہائی حساس ڈیٹا نجی کمپنی کو کیسے دیدیا گیا؟ ایف بی آر کا ریکارڈ حساس ترین ہوتا ہے۔ کیا ایف بی آر ٹیکس بھی جمع کرنے نجی کمپنی کو ہی دیتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا پرال نامی کمپنی نجی نہیں پبلک لمیٹڈ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ایف بی آر افسر کے پورے پورے خاندان اس کمپنی میں ملازم ہیں۔ پرال کمپنی کو ختم کرکے نیب کو تحقیقات کا کہہ دیتے ہیں۔ ایف بی آر اپنا کام خود کرے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کوئی سرکاری افسر پرال کمپنی سے تنخواہ نہیں لے رہا۔ کمپنی کا کام صرف سافٹ ویئر بنانا ہے۔ ٹیکس اعدادوشمار اکٹھے کرنا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ایف بی آر والے اپنا آئی ٹی سسٹم کیوں نہیں بناتے۔ چیئرپرسن ایف بی آر نوشین امجد نے عدالت کو بتایا کہ سول سروس میں تنخواہیں کم ہونے کی وجہ سے تکنیکی لوگ نہیں آتے۔ میری تنخواہ پرال کمپنی کے جی ایم سے بھی کم ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا ایف بی آر کو پرال کے قیام سے کیا فائدہ ہوا؟۔ کیا ایف بی آر کی ٹیکس ریکوری میں اضافہ ہوا؟ ایف بی آر افسر آن لائن پاسورڈز کیساتھ جو کھیل کھیلتے ہیں معلوم ہے۔ بلاوجہ اربوں روپے کے ٹیکس ری فنڈ جاری کیے جاتے ہیں، غیرقانونی ٹیکس ری فنڈ کے کئی مقدمات عدالت میں ہیں، آن لائن سسٹم سے بھی دو نمبری ہی ہونی تو اس کا کیا فائدہ؟ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکمپنیاں بنانے کا مقصد صرف زیادہ تنخواہیں دینا ہے، حکومت جو کام کمپنیوں سے کراتی ہے وہ خود کیوں نہیں کرتی؟ پنجاب میں بھی 56 کمپنیاں بنائی گئی ہیں؟ نوشین امجد نے عدالت کو بتا یا کہ بھارت میں بھی ریونیو محکمہ نے ایسی کمپنی بنا رکھی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا من پسند افراد کو کمپنی میں نوازنے پر تشویش ہے، کمپنیوں میں تقرریوں کا طریقہ کار شفاف ہونا چاہیے۔ پرال کمپنی کا منافع کس کو جاتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا پرال ٹھیک کام کر رہا ہوگا لیکن روزانہ کتنے کنٹینر بغیر ڈیوٹی ادا کیے نکل جاتے ہیں؟۔ کنٹینرز فراڈ میں ملوث افراد کیخلاف کیا کارروائی ہوئی؟۔ یہ بھی بتائیں پرال کے کن افراد کو ایف بی آر ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے؟ وکیل نے کہا ایف بی آر پرال کو سالانہ 68 کروڑ ادا کر رہا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ عدالتی فیصلے میں پرال پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔ ایف بی آر کے مطابق پرال کمپنی حکومت کی ملکیت ہے۔ اٹارنی جنرل کے مطابق پرال کمپنی کو ایف بی آر ڈیٹا تک رسائی نہیں۔ پرال کمپنی ہائی کورٹ کے فیصلے میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب دے۔ بتایا جائے پرال کو کنٹریکٹ دیتے وقت پیپرا قوانین کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی؟۔