حکومت نے اٹارنی جنرل سے استعفیٰ لے لیا، پاکستان بار کے کہنے پر دیا: انور منصور
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ نمائندہ نوائے وقت+وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) اٹارنی جنرل انور منصور علی خان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے بھجوائے گئے استعفیٰ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بار کونسل جس کا میں چیئرمین بھی ہوں نے اپنی پریس ریلیز میں مجھ سے فوری استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ میں سپریم کورٹ بار، سندھ بار اور کراچی بارکا لائف ممبر ہونے، سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور سابق جج ہونے کے ناطے اپنی برادری اور بھائیوں کے ساتھ ہوں۔ اس لئے میں اپنے عہدے سے فوری طور پر استعفیٰ دے رہا ہوں لہذا صدر پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ میرا استعفیٰ منظور کیا جائے۔ آئندہ آنے والے اٹارنی جنرل اور اپنے ملک و قوم کیلئے دعا گو ہوں۔ واضح رہے کہ اٹارنی جنرل کی جانب جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں ججز کے حوالے سے دیے گئے بیان کے بعد تنازعہ ہوا تھا جس پر پاکستان بار نے اٹارنی جنرل سے استعفیٰ طلب کیا تھا جبکہ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا تھا کہ یا تو اپنے موقف کے حوالے سے شواہد لائیں یا پھر تحریری معافی مانگیں۔ دوسری جانب وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے انور منصور خان کے استعفے پر ردعمل میں کہا کہ اٹارنی جنرل فار پاکستان نے استعفیٰ دیا نہیں ان سے استعفیٰ لیا گیا ہے۔ انور منصور خان نے سپریم کورٹ میں حیران کن اور غیر مصدقہ دلائل دیئے تھے۔ سپریم کورٹ میں دلائل پر وزیراعظم، صدر مملکت، شہزاد اکبر اور میں نے تحریری جواب جمع کرایا ہے کہ ہمارا اٹارنی جنرل کے بیان سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں۔ آئین، عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ عدالت میں بیان جمع کرانے کے بعد اٹارنی جنرل سے کہا کہ عہدے سے استعفیٰ دے دیں جس پر انہوں نے اسعفیٰ دے دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے دلائل پر نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ہمیں خود سے اس کو حل کر دینا چاہئے اور انہوں نے اٹارنی جنرل کو عہدے سے ہٹانے کا کہا۔ وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے کیس میں اٹارنی جنرل کے بیان سے اظہار لاتعلقی کیا۔ دو صفحات کے جواب میں کہا گیا ہے کہ انور منصور نے جو زبانی بیان دیا‘ وہ حکومت کی مرضی کے خلاف تھا۔ وفاقی حکومت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی عزت اور احترام کرتی ہے۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ دو دن پہلے انور منصور خان نے سپریم کورٹ میں جو بیان دیا وہ کسی کے علم میں نہیں تھا اور اس میں حکومت کی منشا شامل نہیں تھی۔ وزیر اعظم، صدر مملکت، شہزاد اکبر اور میری طرف سے سپریم کورٹ میں بیان جمع کرایا گیا۔ ہم نے اپنے بیان میں انور منصور خان کی جانب سے لگائے گئے الزامات سے لا تعلقی کا اظہار کیا۔ ادھر وزیراعظم عمران خان نے پارٹی ترجمانوں کو سخت ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا عدلیہ کا احترام سب سے مقدم ہے، کسی بھی قسم کی بیان بازی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی، ڈسپلن کی خلاف وزری پر سخت کارروائی ہوگی۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان سے قانونی ٹیم کے ارکان نے ملاقات کی جس میں وزیر قانون فروغ نسیم، سابق وزیر قانون بابر اعوان، بیرسٹر علی ظفر اور شہزاد اکبر شامل تھے۔ ملاقات میں مختلف قانونی امور پر مشاورت کی گئی۔ وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے وفاقی کا بینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا وزیراعظم نے یقین دلایا ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ وزیراعظم نے انور منصور کو مستعفی ہونے کا کہا کیونکہ انور منصور نے حکومتی پالیسی کے برعکس بیان دیا تھا، وزیراعظم کے کہنے پر وہ مستعفی ہوئے ہیں۔ اس اقدام سے واضح ہوتا ہے کہ وزیراعظم عدلیہ کو آزاد اور خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں۔ عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کے لئے وزیراعظم کی جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئے اٹارنی جنرل کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جنہوں نے عوام کو دکھ اور درد دیئے وہی لوگ آج عوام کے ہمدرد بن کر مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔
اسلام آباد (صلاح الدین خان، نمائندہ نوائے وقت) حکومت نے خالد جاوید خان کو نیا اٹارنی جنرل بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر وزیر اعظم اور ان کی کابینہ نے نئے اٹارنی جنرل کے نام کی منظوری دے دی ہے۔ حتمی منظوری کے لئے سمری صدر پاکستان کو بھیجی جائے گی۔ صدر کی منظوری کے بعد ان کی تقرری کا باقاعدہ نوٹیفکیشن وزارت قانون و انصاف کے توسط سے جاری کردیا جائے گا۔ نئے اٹارنی کا تعلق کراچی سے ہے۔ خالد جاوید پیپلز پارٹی کے معروف سیاستدان این ڈی خان کے بیٹے ہیں۔ خالد انور 1993-1996 کے دوران بے نظیر بھٹو کے لیگل ایڈوائزر اور بعد ازاں اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ خالد انور نے 1991میں ہائی کورٹ وکالت کا لائسنس لیا اور 2004میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔ لندن یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری (بی سی ایل) حاصل کی۔ ایل ایل ایم آکسفورڈ یونیورسٹی سے کیا اور بار ایٹ لاء لنکن ان سے کیا، پرویز مشرف کی ایمرجنسی، آئین معطلی پر عدلیہ بحالی تحریک کے سرگرم رکن رہے۔