نجی یونیورسٹیوں کے تحفظات، طالبعلموں کے خدشات اور حکومت کی ذمہ داری!!!
کئی روز سے طالب علموں، اساتذہ اور مختلف نجی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کی طرف سے پیغامات موصول ہو رہے ہیں کہ شعبہ تعلیم کی موجودہ حالت اور حکومتی اقدامات سے پیدا ہونے والی صورتحال پر لکھا جائے۔ کچھ سیاسی مصروفیات کے باعث نجی جامعات والے معاملے پر لکھا نہیں جا سکا لیکن آج کا سائرن ملک کے سب سے اہم شعبے سے متعلق ہی رہے گا۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس اہم ترین مسئلے کے بہتر حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور فریقین اس راستے پر آئیں جہاں سے ملک کے نوجوانوں کا وقت، پیسہ اور تعلیمی سال ضائع نہ ہو بلکہ سب اتفاق رائے سے آگے بڑھتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں اور نجی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے بغیر کسی رکاوٹ اور پریشانی کے تعلیم حاصل کرتے اور آگے بڑھتے رہیں۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے سات نجی جامعات کے تیئس سب کیمپسز کو نامنظور شدہ یا غیر تصدیق شدہ قرار دیتے ہوئے پہلے مرحلے میں فوری طور پر ان سب کیمپسز میں مزید طالبعلموں کو شامل کرنے سے روکنے کا حکم دیا ہے۔ اگلے مرحلے میں ان جامعات کے خلاف قانونی کارروائی کا راستہ بھی کھلا ہے۔
ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے یہ کارروائی نجی جامعات کی طرف سے بغیر منظوری کے کیمپسز شروع کرنے کی بنیاد پر کی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان تیئس کیمپسز کو شروع کرتے وقت قواعد و ضوابط کا بھی خیال نہیں رکھا گیا، قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کیے گئے۔ فیکلٹی کی کمی بھی ان کیمپسز کے خلاف کارروائی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ان نجی جامعات کے تیئس کیمپسز میں جو تعلیم جاری ہے اس کے لیے بنیادی ضروریات کی کمی بھی کارروائی کی وجہ بنی ہے۔۔یاد رہے جن جامعات کے خلاف ایکشن لیا گیا ہے یہ تمام ملک کی بڑی جامعات ہیں اور ہزاروں طلبا یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہزاروں یہاں سے ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد مختلف شعبوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس معاملے میں کچھ چیزیں بہت ہی حیران کن اور تکلیف دہ ہیں۔ اگر جامعات کو دیکھا جائے تو سب سے پہلے ہمیں درسگاہ سے ہی قانون کی پاسداری اور عملدرآمد کا سبق ملتا ہے۔ یہیں سے ہمیں اخلاقیات کی تعلیم ملتی، معاشرے کو سدھارنے کا سلیقہ سیکھتے ہیں۔ قانون پڑھتے ہیں، پڑھاتے ہیں، سیدھا راستہ دکھاتے ہیں اور اگر ہم جامعات کی بنیاد ہی قانون توڑتے ہوئے رکھیں تو اس کا نتیجہ کیسے بہتر ہو سکتا ہے۔ جب ہم ابتدا ہی غیر قانونی کاموں سے کریں گے تو نئی نسل کو قانون کی عملداری کیسے سکھائیں گے۔ نجی جامعات کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ مالکان بہت پیسہ بناتے ہیں۔ کسی حد تک یہ بات درست ہے کہ نجی جامعات کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر کے آنے سے تعلیم کے مواقع تو پیدا ہوتے گئے لیکن ساتھ ہی ساتھ تعلیم مہنگی بھی ہوتی گئی۔ کل ہی ایک پروفیسر صاحب بتا رہے تھے انکے بیٹے نے لاہور کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی ہے اور اس کی ڈگری پر چالیس لاکھ سے زائد خرچ آیا ہے بتانے لگے کہ جیسے تیسے ان پیسوں کا بندوبست کیا، کئی چیزیں بکی ہیں تو بیٹے کی ڈگری مکمل ہوئی ہے اسی طرح بیٹی کی ڈگری بھی ایسے ہی مکمل ہوئی تھی اس پر بھی ملینز خرچ ہو گئے تھے۔ یہ پروفیسر صاحب مالی حیثیت میں اچھے ہیں پھر بھی انہیں اپنی اولاد کی اعلی تعلیم کے لیے کس مشکل سے گذرنا پڑا ہے وہی جانتے ہیں چلیں ان کے پاس تو وسائل تھے انہوں نے اپنی اولاد پر لاکھوں خرچ کر لیے پاکستان میں کتنے والدین ایسے ہوں گے جو ایسے وسائل رکھتے ہیں کہ صرف دو بچوں کی تعلیم پر ستر اسی لاکھ خرچ کر دیں۔ یہ مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ مالی اعتبار سے یہ ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو لوگ طاقت رکھتے ہیں انہیں اپنے ملک میں بھی بین الاقوامی معیار کی تعلیم میسر ہے۔ آبادی بڑھنے اور ریاست کی طرف بڑھتی ہوئی ضرورت کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر نے تعلیم کے میدان میں نوجوانوں کے لیے حصول علم کو آسان بنایا اور تعلیم حاصل کرنے کے مواقع پیدا بھی کیے۔ ذرا سوچیں کہ اگر یہ نجی جامعات نہ ہوتیں اور اس دوران ریاست تعلیمی شعبے میں اپنی ذمہ داریاں پورا نہ کرتی تو آج ملک میں یہ اہم ترین شعبہ بدترین حالات کا شکار ہوتا۔ تعلیمی شعبے میں ہم پہلے ہی خاصے پیچھے ہیں اگر پرائیویٹ سیکٹر سہارا نہ دیتا تو ہم جہالت میں تیزی سے ترقی کر رہے ہوتے۔ تعلیم مہنگی ضرور ہوئی لیکن تعلیم عام بھی ہوئی ہے۔ لوگوں نے جیسے تیسے قرض لے کر، مدد لے کر، چیزیں بیچ کر، قیمتی اشیاء گروی رکھ کر تعلیم حاصل ضرور کی ہے۔ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ تعلیم کو کاروبار بنانے سے حقیقی مقصد پس پشت چلا گیا، دولت اور پیسے نے خدمت پر قبضہ کر لیا یا خدمت والا پہلو ضمنی حیثیت اختیار کر گیا اور جلد پیسہ بنانے میں قوانین توڑے جانے لگے۔ اب ہمیں یہ مرحلہ سمجھداری کے ساتھ حل کرنا ہے کہ بچوں کے پیسے اور وقت ضائع نہ ہو انہیں اپنی ڈگریوں کے لیے سڑکوں پر نہ نکلنا پڑے۔ ہمیں اپنے بچوں اور انکے والدین کو ذہنی کوفت سے بچانا ہے۔ یہاں مسئلہ صرف یونیورسٹی مالکان کا نہیں ہے یہاں مسئلہ ہزاروں بچوں اور ان کے خاندانوں کا ہے۔ حکومت قوانین پر عملدرآمد کروائے، ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے لیکن اگر قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیمپسز شروع ہوئے، داخلے ہوئے، کلاسز شروع ہو گئیں تو اس میں بھی قصور متعلقہ محکمے کا ہی ہے یہ سب اس وقت کہاں سوئے ہوئے تھے اتنا عرصہ انہیں کچھ خبر نہ ہوئی کہ ان نجی جامعات کے سب کیمپسز میں قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے سو اب یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے بہتر راستہ نکالنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
جہاں تک تعلق حکومتوں کا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماضی میں اس حوالے سے بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔ اضافہ تو دور کی بات ہے ہم پہلے سے موجود جامعات کا معیار برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم نے موجود سرکاری جامعات کو بہتر بنانے کے لیے بھی وہ اقدامات نہیں اٹھائے جس کی ضرورت تھی۔ ریاست کو ہمیشہ تعلیم کے شعبے کو ترجیح دینی چاہیے بلکہ ترجیح ہی صرف تعلیم ہونی چاہیے۔
نجی جامعات کی انتظامیہ کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ نئے کیمپسز اور پروگرامز کو شروع کرنے سے پہلے تقاضے پورے کرے اور قوانین پر عمل کرتے ہوئے بنیادی ڈھانچے کو مکمل کیے بغیر کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ ان کیمپسز اور پروگرامز کو شروع کرنے میں رکاوٹ بھی ریاستی ادارے ہی کھڑی کرتے ہیں لیکن اس کے لیے بھی عدالت کا راستہ بہر حال موجود ہے۔
ہم نے لاہور کینال روڈ پر ایسے ہی مسائل سے دوچار ایک یونیورسٹی کے طالب علموں کو خوار ہوتے دیکھا ہے یہ منظر دہرائے نہیں جانے چاہییں۔ تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اس حق کی فراہمی ریاست کا فرض ہے۔ ریاست اپنی ذمہ داریوں کی طرف آئے یہی سب مسائل کا سب سے بہتر اور آسان حل ہے۔