• news
  • image

یوم ولادت حضرت فاطمہ زہر ا ؓ

آغا سید حامد علی شاہ موسوی 


20جمادی الثانی طبقہ نسواں کا یوم نجات ہے جب شفیع المذنبین خیر البشر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ؐ کے پاکیزہ آنگن میں ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ کی گود میں خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کی آمد ہوئی ۔جس عہد میں نبی کریم ؐ کے گھر میں ایک بیٹی حضرت فا طمہ کی آمد ہوتی ہے اس وقت دشمنان اسلام کفار مکہ رسول کو بیٹوں کی وفات کے سبب مقطو ع النسل اور ابتر ہونے کے طعنے دے رہے تھے ۔دوسری جانب عورت اور بیٹی کا مقام اس قدر گر چکا تھاکہ وہ  تذلیل کے پاتال میں اوندھے منہ پڑی تھی بدترین صنفی استحصال اس کا مقدر تھا ، غلاموں کی طرح عورت کو بھی شہریت کا حق حاصل نہ تھا یونانی تہذیب انسانیت کو طاعون اور غم کا شکار کر نے کا الزام عورت کے سر دہرتی تھی حد تو یہ ہے کہ الہامی مذہب عیسائیت کے پیشوا عورت کو شیطانیت کا باب قرار دے کر موجبِ نفرت قراردے چکے تھے اور عرب معاشرے کا حال تو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا۔
اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے تو اس کا چہرہ غم کے سبب کالا پڑ جاتا ہے، اور اس کے دل کو دیکھو تو وہ اندوہناک ہو جاتا ہے،(بیٹی کی پیدائش کے سبب) وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ آیا ذلت برداشت کر کے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں دفنا دے۔(سورہ نحل )
 پیدا ہوتے ہی مار دیا جانا عورت کا مقدر تھابطحا کی سرزمین سے پھوٹنے والی صدائے مصطفوی ؐ ظلم استحصال جہالت فسق و فجور کے گلے سڑے نظام کی بنیادیں پہلے ہی ہلا چکی تھی ۔ذات خداوندی نے اپنے پیارے حبیب کے گھر میں فاطمہؓ جیسی بیٹی عطا کرکے عورتوں پر ظلم جبر استحصال کی فرسودہ روایات کو خس و خشاک کی مانند بکھیر کر رکھ دیا۔
بیٹیوں سے نفرت کرنے والے معاشرے میں فاطمہ ز ہراؓنبی کریم ؐکی محبتوں کا مرکز بنی نظر آتی ہیں، جونبیؐ اللہ کی محبوب ترین ہستی ہیں ان کی محبوب ترین ہستی بھی فاطمہ زہراؓہیں ۔ عبدالسلام بن حرب، ابوالجحاف، جمیع بن عمیر تیمی کہتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ حضورؐ کو کس سے سب سے زیادہ محبت تھی۔ ام المومنین حضرت عائشہ نے فرمایا کہ فاطمہ  ز ہراؓ سے۔ پھر پوچھا کہ مردوں میں کس سے سب سے زیادہ محبت تھی انہوں نے فرمایا کہ ان کے (یعنی فاطمہ ؓ کے) شوہر سے۔(جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1845 حدیث مرفوع مکررات 21 متفق علیہ 11)
 صحابہ کرام بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ؐ کی حضرت فاطمہ ز ہراؐ محبت کا یہ عالم تھا کہ رسول کریم ؐ جب سفر پر  جاتے توسب سے آخری وقت حضرت فاطمہ ز ہراؓ کو عطا کرتے اور جب واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فا طمہؓ کے ہاں جاتے(مشکوۃ شریف:جلد چہارم)
جہاں بیٹی کوذلت کا سامان سمجھا جاتا تھا وہاں کائنات کی بلند ترین ہستی حضرت محمد مصطفی ؐاپنی خوشی کا موجب اپنی بیٹی فاطمہ کی خوشی اور ناراضگی کو اپنی بیٹی کی ناراضگی  سے مشروط کر کے فرمایا ’’ فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہے جس نے اس کو غضبناک کیا اس نے مجھ کو غضبناک کیا۔(صحیح بخاری:متفق علیہ)۔
سیّدہ، زاہرہ، طیّبہ، طاہرہ ،جانِ احمد ؐکی راحت پہ لاکھوں سلام(امام احمد رضا بریلوی )
جس نبی ؐ کی تعظیم حضرت آدم ؑسے عیسی ؑ تک تمام انبیاء اور  ملائکہ کرتے ہیں وہ نبیؐ اپنی بیٹی  فاطمہؓ کی تعظیم اور تکریم کیلئے ایستادہ کھڑے نظر آتے ہیں ۔ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں میں نے عادات چال چلن خصلتوں اور اٹھنے بیٹھنے میں فاطمہ بنت محمدؐ سے زیادہ حضور نبی کریمؐ سے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا۔ جب حضرت فاطمہ آتیں تو آپؐ کھڑے ہوجاتے ان کا بوسہ لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ (جامع ترمذی:جلد دوم متفق علیہ)۔
نبیؐ کریمؐ کی بیٹی کا مقام مادر عیسی حضرت مریمؑ سے بھی بلند قرار دیا جاتا ہے ۔ابن عباس پیغمبر خدا ؐسے روایت کرتے ہیںچار خواتین اپنے زمانے کی دنیا کی سردار ہیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون ، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد ؐ، اور ان کے درمیان سب سے زیادہ  افضل حضرت فاطمہؓ ہیں"۔ (الدر المنثور سیوطی)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ؐنے فرمایا کہ تمہارے (اتباع و اقتداء کرنے) کے لئے چار عورتیں ہی کافی ہیں۔ مریم بنت عمران، فرعون کی بیوی آسیہ،خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ؐ۔ (جامع ترمذی:جلد دوم متفق علیہ)
علمائے اہلسنت سمیت الزرقانی، امام المقریزی، قطب الخضیری اور امام السیوطی  سمیت ہر مورخ محقق نے تسلیم کیا کہ فاطمہ ؓحضرت مریم ؑسمیت دنیا کی تمام عورتوں سے افضل و برتر ہیں۔  (روض الانف) اسی لئے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا کہ مریم از یک نسبت عیسی عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
مریم عیسی ؑکی ماں ہونے کے ناطے ایک ہی نسبت سے بزرگ و عزیز ہیں؛ جبکہ حضرت زہرا تین نسبتوں سے بزرگ و عزیز ہیں۔( رحمۃ للعالمین ؐکی دختر، امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑکی زوجہ اور حسنین شریفین کی مادرگرامی)
 مستدرک علی الصحیحین  میںامام حاکم نیشاپوری نقل کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے اپنے آخری وقت میں حضرت فاطمہ ؓسے فرمایا: بیٹی!کیا تم  خو ش نہیں کہ تم امت اسلام اور تمام عالم کی عورتوں کی سردارہو یہ حدیث بخاری و مسلم نے بھی نقل کی ہے ۔آلوسی حدیث نبوی کو یوں نقل کرتے ہیں کہ  " بتولؑ تمام گذشتہ اور آئندہ عورتوں سے افضل ہیں"۔(تفسیرروح المعانی)۔
دنیا بیٹوں سے اپنی نسل کے تحفظ کیلئے محبت کیا کرتی تھی ، اسی لئے بیٹوں کی وفات پر مشرکین مکہ نے نبی کریم کو مقطوع النسل ہونے کے طعنے دیئے ۔ لیکن فاطمہ زہراؓ کی صورت اللہ نے اپنے حبیب کو سورہ کوثر کی تفسیرعطا کی ۔ امام فخر الدین رازی ؒ کے بقول حضرت فاطمہ ز ہراؓاور ان کی اولاد رسول کو ابتر کہنے والوں کیلئے اللہ کا جواب تھا۔آج عاص بن وائل ، ابو جہل ، عقبہ بن معیط کا کوئی نام لیوا نہیں لیکن سادات بنی فا طمہؓ کی صورت اولاد مصطفی ؐ پوری دنیا میں تو حید ورسالت و ولایت کا پرچم سربلند کئے ہوئے ہے ۔
 جس معاشرے میں لڑکے باعث افتخار سمجھے جاتے تھے وہاں افضل کائنات نبی کی نسل کا ذریعہ بیٹی قرار دے دی جاتی ہے ۔حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاریؓ سے روایت  ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا’’ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہ کے ،میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا ولی ہوں‘‘حضرت عمر ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر نسب منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب اولاد فا طمہؓ کے (حاکم المستدرک ،طبرانی  المعجم الکبیر،احمد بن حنبل فضائل الصحابہ،شوکانی )۔
حضرت فا طمہؓ گھراور دروازے کی بھی شان سب سے جدا ہے  پیغمبر اسلام ؐ کا روز کامعمول تھا ک جب نماز صبح کے لئے تشریف لے جاتے تھے تو حضرت زہرا ؓکے دروازے کی چوکھٹ کو پکڑ کر اپنی بیٹی اور ان کے گھرانے پر سلام بھیجتے ہوئے فرماتے تھے: ’’السلام علیک یا اہل بیت النبوۃ اورسورہ احزاب کی اس آیت کی تلاوت فرماتے  اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ  الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ  وَیُطَھِّرَکُمْ  تَطْھِیْرًااے اہلبیت( رسولؐ) اللہ یہ چاہتا ہے کہ تم سے نجاست کو دور کردے اور تمہیں ہر طرح سے پاک رکھے  (جیسا پاک ر کھنے کا حق ہے )
جب مسجد نبوی میں تمام گھروں کے دروازے بند کر دیئے گئے تو واحد گھر جس کا دروازہ مسجد نبوی میں کھلا رہنے دیا گیا وہ حضرت فاطمہ ز ہراؓ کاہی تھا۔ (در المنثور، ج۶ ۔تفسیر سورہ نور، روح المعانی)
حضرت فاطمہ ز ہراؓوہ عظیم ہستی ہیں جن کے نکاح کی تقریب عرش پر بھی سجائی گئی حضرت انس بن مالک ؓسے مروی ہے کہ رسول ؐ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علی سے فرمایا اللہ نے فاطمہ سے تمہاری شادی کردی ہے اور تمہارے نکاح پر چالیس ہزار فرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلس نکاح میں شریک کیا گیااور شجر ہائے طوبی سے فرمایاان پر موتی اور یاقت نچھاور کروپھر دلکش آنکھوں والی حوریں ان موتیوں اور یاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں جنہیں (تقریب نکاح میں شرکت کرنے والے )فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحفہ دیں گے ‘‘(محب طبری الریاض النضرۃ)
المختصر یہ کہ فا طمہ محمد ؐمصطفی ؐکا وجود خواتین کی نجات کی نوید بن گیا بیٹیاں زحمت کے بجائے رحمت قرار دی جانے لگیں ۔ ۔اسلام نے عورت کو جومقام 14سو سال قبل دیا تھا وہ غیر مسلم معاشرے اور مغربی دنیا آج بھی نہیں دے سکیں ۔ فروری 1918میں برطانیہ میں عورت کو مشروط رائے دہی کا حق دیا گیا مغرب میں عورت کو اپنے  بنیادی حقوق کے حصول کے لیے ایک طویل جدوجہد سے گزرنا پڑا 1979میں جاکر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کی تمام اقسام کے خاتمے کے کنونشن کو منظور کیا جبکہ نبی کریم ؐ نے چودہ سو سال قبل اللہ کی وحی نازل ہونے کے بعد پہلی تصدیق مادر فاطمہ ز ہراؓحضرت خدیجۃ الکبری سے حاصل کی ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن