• news

افغانستان: 7 روزہ جنگ بندی شروع، وعدے پورے ہونے پر امریکہ سے شراکت داری کر سکتے ہیں: ڈپٹی کمانڈر طالبان

اسلام آباد، واشنگٹن (سہیل عبدالناصر، سٹاف رپورٹر، نوائے وقت رپورٹ) امریکہ طالبان کے درمیان امن معاہدے کا اعلان کیا گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ فریقین 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط کریں گے۔ امن معاہدے کے بعد افغان مذاکرات شروع ہوں گے۔ معاہدے سے پہلے طالبان پر تشدد واقعات میں کمی کریں گے۔ پرتشدد کارروائیاں روکنے کے سمجھوتے پر مکمل عمل ہوا تو دستخط ہوں گے۔ امریکی وزیر خارجہ نے قطر سمیت اتحادیوں اور افغان امن کی حمایت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔ سراج الدین حقانی نے کہا ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ معاہدہ کرنے جا رہے ہیں، اس کی کامیابی کا انحصار امریکہ کی طرف سے وعدوں کی تکمیل پر ہے، اگر امریکہ نے وعدے پورے کیے تو تب ہی اس پر پورا اعتماد کر سکتے ہیں اور مستقبل میں امریکہ کے ساتھ تعاون حتیٰ کہ شراکت داری کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ افغانستان میں ہر کوئی جنگ سے تھک چکا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ قتل و غارت کوبند ہونا چاہئے۔ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں اتفاق رائے سے حکومت قائم ہوگی۔ انٹرا افغان مذاکرات کے دوران کسی بھی فریق کی طرف سے پیشگی شرائط عائد نہیں ہونی چاہئیں۔ ہم دیگر افغان گروپوں سے مل کر کام کرنے کیلئے پرعزم ہیںتاکہ ایسے سیاسی نظام پر اتفاق ہو سکے جس میں کوئی افغان خود کو باہر خیال نہ کریں۔ امریکہ سے ہونے والا امن معاہدہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ اہم سنگ میل ہے۔ کوئی شک نہیں خونریزی کا یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔ باہمی احترام کی بنیاد شراکت داروں کے ساتھ ہے۔ امریکہ اور اتحادیوں کے خلاف دفاع کے سوا طالبان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ غیرملکی فوج کا انخلاء ہمارا بنیادی مطالبہ رہا ہے۔ طالبان اور امریکہ، دونوں نے جمعہ کی شام بیک وقت معاہدے کا اعلان کیا ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نوائے وقت کیلئے جو بیان ارسال کیا، اس میں کہا گیا ہے کہ’’امارت اسلامیہ افغانستان اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد جانبین نے فیصلہ کرلیا کہ 05 رجب المرجب 1441ھ بمطابق 29 فروری 2020 ء کو حتمی شدہ معاہدے پر عالمی برادری کی موجودگی میں فریقین دستخط کریں گے۔اب سے فریقین معاہدہ پر دستخط کے لیے مذکورہ تاریخ سے قبل ماحول کو سازگار بنا ئیں گے، معاہدہ پر دستخط کی تقریبات میں چند ممالک اور عالمی تنظیموں کے اعلیٰ حکام کو بطور گواہ دعوت دی جائیگی، قیدیوں کی رہائی کیلئے ضروری انتظامات کیے جائینگے، ملک کے مختلف دھڑوں سے بین الافغان مذاکرات کے لیے راہ ہموار کی جائیگی اور آخر میں تمام بیرونی افواج کے انخلا اور افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ کرنے سے ملک بھر میں ملک گیر صلح کے لیے راہ ہموار کی جائیگی، تاکہ تمام اہل وطن امن کے فضا میں اسلامی نظام کے زیرسایہ پرامن زندگی بسر کریں۔ ان شاء اللہ تعالی‘‘ بیان، اردو، پشتو، دری عربی اور انگریزی سمیت پانچ زبانوں میں جاری کیا گیا ہے۔ کابل میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس نوعیت کا بیان دیا ہے جب کہ امریکی محکمہ خارجہ نے اس ضمن میں ایک تفصیلی اور تحریری بیان جاری کیا ہے۔ طالبان کے بیان میں واضح نہیں کہ کس مقام پر دستخط کئے جائیں گے تاہم قوی امکان یہی ہے کہ دستخطوں کیلئے تقریب دوحہ قطر میں ہو گی۔ اس خوش کن اعلان سے قطع نظر، افغانستان کے اندر سیاسی صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے جہاں چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور طاقتور ملیشیاء کمانڈر رشید دوستم نے اشرف غنی کی صدارتی الیکشن میں جیت کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے ملک کے اندر متوازی حکومت تشکیل دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ ترجمان طالبان سہیل شاہین نے امن عمل میں حصہ بننے والے ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ امن عمل میں حصہ لینے والے قطر اور دیگر ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ عارضی جنگ بندی کے معاہدے کے تحت ایک ہفتے تک افغان طالبان اتحادی فورسز اور افغان فورسز کیخلاف کسی بھی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ طالبان رہنما سراج الدین حقانی کا کہنا ہے افغان عوام جلد امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کی خوشی منائیں گے۔طالبان رہنما سراج الدین حقانی نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں ’طالبان کیا چاہتے ہیں‘ کے عنوان سے مضمون لکھا جس میں انہوں نے افغان جنگ، امریکہ کے ساتھ معاہدے اور بعد کی صورت حال پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے لکھا کہ ہم سب نے امریکہ کی تاریخ کی اس طویل ترین جنگ کی بھاری قیمت ادا کی، اس جنگ میں ہر کسی نے اپنا کوئی نہ کوئی پیارا کھویا ہے، ہم نے جنگ کا راستہ خود نہیں چنا بلکہ یہ ہم پر مسلط کیا گیا، چار دہائیوں سے زائد عرصے میں روزانہ افغانوں نے اپنی قیمتی جانیں کھوئیں۔کوئی شک نہیں کہ خونریزی کا یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔سراج الدین حقانی نے کہا کہ غیر ملکی فوج کا انخلا ہمارا بنیادی مطالبہ رہا ہے، آج امریکہ سے امن معاہدہ کوئی معمولی بات نہیں، یہ اہم سنگ میل ہے۔ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں حکومت کے حوالے سے ملک سے اور باہر سے اٹھنے والے خدشات اور سوالات سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان خدشات پر میرا جواب یہ ہے کہ اس بات کا دارومدار افغان عوام کی رائے پر منحصر ہے، ہمیں اپنے خدشات کو غیر ملکی تسلط اور مداخلت سے آزاد ہونے کے لیے پہلی مرتبہ ہونے والے حقیقی مذاکراتی عمل میں شامل نہیں ہونے دینا چاہیے۔طالبان رہنما نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس مذاکراتی عمل کے حوالے سے پہلے سے نتائج اخذ نہ کرے اور شرائط نہ رکھے، ہم ایسے سیاسی نظام کے لیے پرعزم ہیں جس میں افغان عوام کی آواز جھلکتی ہو اور وہ حقیقی معنوں میں عزت و احترام پر مبنی ہو، اور کوئی بھی افغان خود کو اس سے علیحدہ نہ تصور کرے۔سراج الدین حقانی نے کہا میں بہت پْرامید ہوں کہ غیر ملکی طاقتوں سے آزادی کے بعد ہم متحد ہو کر ایک ایسا اسلامی نظام لائیں گے جس میں تمام عوام کو برابر حقوق حاصل ہوں گے، خواتین کو بھی اسلام کے مطابق تعلیم اور کام کرنے کی آزادی حاصل ہو گی اور تمام لوگوں کو میرٹ کی بنیاد پر انصاف فراہم ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں موجود غیر ملکی گروپس کے دنیا کے لیے خطرات کے خدشات سے بھی آگاہ ہیں لیکن یہ سب خدشات سیاسی اور بے بنیاد ہیں، کوئی بھی افغان یہ نہیں چاہتا کہ ان کے ملک کو ہائی جیک کیا جائے اور افغانستان میدان جنگ بن جائے۔ ہمارا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ مختلف گروپس محنت سے افغانستان کے مستقبل کے لیے مشترکہ جدو جہد کریں اور مجھے امید ہے کہ ہم یہ کر لیں گے، اگر ہم غیر ملکی دشمنوں سے معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو باقی معاملات ہم انٹرا افغان مذاکرات کے ذریعے حل کر لیں گے۔ ہم تمام ممالک کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں اور غیر ملکی افواج کے نکل جانے کے بعد افغانستان میں پائیدار امن اور تعمیر نو کے لیے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی فوج کے افغانستان سے جانے کے بعد امریکہ بھی افغانستان کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ ہم تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، اور دنیا سے تنہا ہو کر نہیں رہ سکتے، نیا افغانستان بین الاقوامی برادری کا ایک باعزت رکن ہوگا۔طالبان رہنما نے کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ معاہدے کے قریب ہیں اور ہم اس معاہدے پر من و عن عمل کرنے کے لیے پرعزم ہیں، افغان عوام جلد اس معاہدے پر خوشی منائیں گے، جب یہ معاہدہ مکمل طور پر ہو جائے گا تو لوگ غیر ملکی افواج کو افغانستان سے نکلتا دیکھیں گے۔سراج الدین حقانی نے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ وہ دن دور نہیں ہے جب ہم اس سنگ میل تک پہنچ جائیں گے اور ہم سب افغان بہن بھائی مل کر ایک پرامن اور خوشحال افغانستان کی بنیاد رکھیں گے۔ہم نئی خوشیوں کا آغاز کریں گے جس میں خود ساختہ جلا وطن ہونے والے تمام مخالفین کو وطن واپس آنے کی دعوت دی جائے گی تاکہ ہر کوئی عزت و وقار کے ساتھ اپنے ملک میں رہ سکے۔امریکی مذاکرات اور طالبان کے درمیان ایک ہفتے کے لیے تشدد میں کمی لانے پر اتفاق ہو گیا ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق فریقین کے درمیان تشدد میں کمی لانے کا ا?غاز 22 فروری بروز ہفتے سے ہو گا، آج شب 12 بجے سے فریقین پرتشدد کارروائیوں میں کمی لائیں گے۔ترجمان افغان سلامتی کونسل کا کہنا ہے کہ افغان حکومت منصوبے پر عمل درآمد کے لیے مکمل طور پر تیارہے، جنگ بندی کے باوجود داعش اور دیگر دہشت گرد وں کے خلاف آپریشن بدستور جاری رہے گا۔امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ افغانستان بھر میں تشدد کے واقعات میں کمی پر اتفاق ہوگیا ہے۔ اس سمجھوتے پر کامیابی سے عمل درآمد کیا گیا تو 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ طالبان معاہدے کے بعد افغان دھڑوں میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگا۔امریکی وزیرخارجہ کا مزید کہنا ہے کہ کہ چیلنجز باقی ہیں لیکن دوحہ مذاکرات سے امید اور اچھا موقع ملا ہے۔ افغان اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔مائیک پومیپو نے قطر سمیت اپنے تمام امریکی اتحادیوں اور شراکت داروں کا افغانستان میں امن کی حمایت پر شکریہ ادا کیاہے۔یاد رہے کہ طالبان، امریکہ اور افغان فورسز نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ امن معاہدے سے قبل فریقین ایک ہفتے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ افغانستان میں جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔طالبان کے ایک سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ امن معاہدے پر دستخط کے فوراً بعد امریکہ اور افغان حکومت 5000 طالبان قیدیوں کو رہا کریں گے جبکہ اس کے جواب میں طالبان حراست میں موجود تقریباً ایک ہزار قیدی چھوڑیں گے۔تاہم امریکہ یا افغان حکومت کی طرف سے اب تک معاہدے کے مندرجات منظر عام پر نہیں آئے ہیں۔واشنگٹن نے اس موقف پر زور دیا ہے کہ صرف طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر آگے بڑھا جائے گا جب وہ تشدد میں کمی سے متعلق باہمی طور پر طے شدہ سمجھوتے پر کامیابی سے عمل درآمد کریں گے۔فرانسیسی نیوز ایجنسی کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج کے ذمہ داران نے اس حوالے سے تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے تاہم پاکستان میں موجود ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ہفتے کو جزوی جنگ بندی کی جائے گی۔افغان حکام کا کہنا ہے کہ تشدد میں کمی پر عمل درآمد کی صورت میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کو حتمی شکل دی جائے گی۔طالبان ذرائع کے حوالے سے اے ایف پی کا بتانا ہے کہ امریکہ اور طالبان نے 29 فروری کو معاہدے پر دستخط کرنے پر اتفاق کیا ہے جس کے بعد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن معاہدہ ہونا ہے جس کے لیے 10 مارچ کو بات چیت شروع ہو گی۔افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار کو طالبان کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔ وہاں طالبان کے ایک نمائندے نے فرانسیسی خبر ایجنسی کو بتایا ہے کہ قیادت کی جانب سے اْنہیں ایک ہفتے کے لیے حملے نہ کرنے کا حکم موصول ہوا ہے اور وہ اس پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں۔ ادھر پاکستان نے امریکہ طالبان معاہدے کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ اور طالبان کے براہ راست مذاکرات کی حمایت کی اور شروع سے اب تک اس معاہدے کا سہولت کار رہا ہے ہمیں 29 فروری کو معاہدے پر دستخط کا انتظار ہے۔ افغانستان میں امن سے ہمیں بے پناہ فائدہ ہو سکتا ہے، باہمی تجارت میں اضافہ ہو گا، ہماری توجہ مغربی سرحد پر رہی اسوقت مغربی سرحد پر ہے،افغان قیادت نے فیصلہ کرنا ہے انہوں نے مستقبل میں معاملات کیسے حل کرنے ہیں،ہم ساری ذمہ داری نہیں لے سکتے،پہلے کسی کو توقع نہیں تھی امریکہ طالبان کیساتھ بیٹھے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن