• news

پاکستان میں موجودگی میں امریکہ، طالبان معاہدے پر دستخط ہونگے: شاہ محمود

اسلام آباد‘ ملتان (نیٹ نیوز + اے پی پی‘ نوائے وقت رپورٹ+سپیشل رپورٹر) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان امن عمل پر کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی موجودگی میں اس معاہدے پر دستخط ہوں گے کیونکہ پاکستان کے بغیر ان معاملات کا آگے بڑھنا ممکن نہیں تھا۔ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 'مسئلے کا پْرامن حل آسان تھا نہ ہے'۔ ان کا کہنا تھا کہ 'سب سے پہلے تو ہمیں دنیا کو یہ باور کروانا تھا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل طاقت کے ذریعے ممکن نہیں (لہٰذا) جامع مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا'۔ دوسری بات یہ ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے آمادہ کرنا بھی آسان نہیں تھا۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'جب افغانستان میں ایک ہلاکت کے بعد صدر ٹرمپ کی طرف سے ٹوئٹ آیا کہ انہوں نے افغان امن مذاکرات معطل کر دیئے ہیں تو ہماری کوشش تھی کہ مذاکرات جلد دوبارہ بحال ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ 'پاکستان نے 2 مغویوں کو چھڑانے میں اپنا کردار ادا کیا جبکہ دوحہ کے اندر مذاکرات کا شروع ہونا بھی آسان نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'خوشی کی بات یہ ہے کہ آج دونوں فریق کہہ رہے ہیں کہ ہم نے تفصیلات طے کر لی ہیں، ہم ایک معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں جبکہ ہمیں تشدد میں کمی بھی لانی ہے اور ان شاء اللہ 29 تاریخ کو اس معاہدے پر دستخط بھی کرنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'آج امریکا سمیت پوری دنیا ہمارے کردار کو سراہ رہی ہے، چند روز قبل افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اسلام آباد تشریف لائے جہاں وزیراعظم عمران خان اور میرے ساتھ ان کی تفصیلی ملاقات بھی ہوئی۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 'سارے معاملات جو اب منظر عام پر آ رہے ہیں ان پر ہماری تفصیلی مشاورت بھی ہوئی اور ہم نے ایک روڈ میپ طے کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ 'ہم نے زلمے خلیل زاد کو یہ بھی کہا تھا کہ ایسے عناصر موجود ہیں جو اس ساری صورتحال کو خراب کرنے کے درپے ہیں۔ ہمیں ان عناصر سے باخبر رہنا ہوگا کیونکہ ایک طبقہ ہے جو جنگ کی کیفیت سے مستفید ہو رہا ہے، (لہٰذا) امریکہ اور اس کے حلیفوں کو ان عناصر پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کی دیانتداری اور کوششیں رنگ لے آئیں کہ بات یہاں تک پہنچی ہے، امید ہے کہ یہ بات مزید آگے بڑھے گی۔ 'جب مائیک پومپیو پاکستان تشریف لائے اور میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو اس وقت پاک امریکہ تعلقات میں تناؤ تھا، میں نے ان سے پاک امریکہ تعلقات کو از سر نو استوار کرنے کے حوالے سے بات کی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ بہتری کا یہ راستہ کابل سے مشروط ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'آج میں ان کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ ہم نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے ہم نہ کابل تک کا سفر طے کر لیا ہے ہم نہ صرف ایک مستند وفد کو سامنے لے کر آئے بلکہ اس وفد نے مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچایا۔'اب یہ افغانستان کی قیادت کی ذمہ داری ہے، جنہوں نے اس جنگ کی جانی اور مالی قیمت ادا کی ہے (لہٰذا) اس قیادت کو اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'میرا تجزیہ یہ ہے کہ افغانستان کے عوام تو امن چاہتے ہیں (لیکن) اب یہ خواص پر منحصر ہے کہ وہ امن کی کاوشوں کو آگے بڑھاتے ہیں یا اسے سیاسی رسہ کشی کی نظر کرتے ہیں، (تاہم) اس کی تمام ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے پاکستان پر نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ '29 فروری کے بعد کوشش ہے کہ ایک جامع وفد تشکیل پائے جس سے انٹرا افغان مذاکرات کی طرف بڑھا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ 'پاکستان نے خلوص اور نیک نیتی سے افغان امن عمل میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور اب افغانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکومت بہت بڑے مافیا کا مقابلہ کر رہی ہے۔ اپوزیشن احتساب سے بچنے کیلئے شور مچا رہی ہے۔ ملک لوٹنے والوں کو احتساب کا سامنا کرنا ہو گا۔ ملکی معیشت بہتر ہو رہی ہے۔ قوم کو جلد اچھی خبریں ملیں گی۔ بھارت کی پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی سازشیں ناکام ہو گئیں۔ امریکہ اور طالبان میں امن معاہدہ پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ کسی کو توقع نہیں تھی کہ طالبان اور امریکہ ایک میز پر بیٹھیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن