• news
  • image

بدحالی کا ذمہ دار کون،عوام یا حکمران؟؟؟؟

حکومتی وزراء کے بیانات پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں روٹی کھانا بھی شاید جرم بن چکا ہے۔ عوام کے لیے زندگی تنگ ہوتے ہوتے اس سطح تک آ گئی ہے کہ اب ان کے لیے آٹا خریدنا بھی ممکن نہیں رہا یا آٹا بھی ان کی قوت خرید سے باہر نکل رہا ہے۔ زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت آٹا ہے۔ روٹی ہر کسی نے کھانی ہے، امیر غریب صنعتکار ہو یا مزدور آٹا سب کے لیے برابر کی اہمیت رکھتا ہے۔ مہنگا ہو سستا خریدنا ضرورت ہی نہیں مجبوری بھی ہے۔ آٹے کی بروقت اور مناسب قیمتوں پر فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے ۔ اشیاء خوردونوش کی بلاتعطل اور مناسب قیمتوں پر فراہمی میں حکومت اب تک مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
حکومتی وزراء کے بیانات اور مشورے ایسے ہیں جیسے وہ کسی اور مخلوق سے ہیں یا کسی اور سیارے سے آئے ہیں۔ کوئی یہ دلیل پیش کر رہا ہے کہ سردیوں میں لوگ کھاتے زیادہ ہیں اس لیے آٹے کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ بحران کا کوئی وجود نہیں ہے یہ بحران مصنوعی ہے، کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ بحران کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے، کسی کو پیپلز پارٹی میں خرابیاں نظر آ رہی ہیں۔ کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ بحران میں حکومت ذمہ دار نہیں ہے۔ آج ہی کے بیانات پڑھ لیں اکثریت کہہ رہی ہے کہ کوئی بحران نہیں اگر بحران نہیں ہے تو گندم باہر سے کیوں منگوا رہے ہیں اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کیوں ہوا ہے۔ اسکا جواب کسی کے پاس ہے؟
اس کاروبار سے کئی لوگ منسلک ہیں اور یہ براہ راست کاروباری افراد کی ناکامی ہے لیکن اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ کسی کو اس بحران میں سازش نظر آ رہی ہے غرض جتنے ضرورت مند ہیں وہ سب اپنی اپنی حیثیت اور ضرورت کے مطابق بیانات جاری کر رہے ہیں لیکن تھوڑی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص اس معاملے میں کسی بھی قسم کی دلیل ماننے کو تیار نہیں ہے۔ جب ووٹرز ہی بددل ہو جائیں تو اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے ووٹوں سے حکومت قائم ہوئی ہے آج وہی لوگ حکومت کے مخالف کھڑے ہیں تو انکی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ انکی رائے کا احترام کرتے ہوئے وزراء کو اپنی کارکردگی پر نظر دوڑانی چاہیے کیونکہ گندم یا آٹے کا کم ہونا انکی براہ راست نالائقی و نااہلی کا ثبوت ہے۔ وزراء اور مشیران بجائے اس کے کہ غلطی تسلیم کریں الٹا عوام کو الٹے الٹے مشورے دے کر زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ گندم کو باہر بھجوانے کی اجازت کیوں دی گئی تھی۔ سندھ ناکام ہے تو پنجاب میں کون سی دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ سندھ ناکام ہے تو پنجاب نے کون سا امتحانات میں ٹاپ کر لیا ہے۔
میرے پیارے پاکستانیو سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ سب سیاست دان اس کرپٹ نظام کا حصہ ہیں جس کے ذریعے وہ عوامی خواہشات کا سودا کرنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ عوام سڑکوں پر دھکے کھاتے ہیں، ڈنڈے کھاتے ہیں موسموں کی سختیاں برداشت کرتے ہیں اور یہ نام نہاد رہنما ہر دوسرے لمحے ہزاروں ووٹرز کے مستقبل کا سودا کرنے میں لمحہ بھر بھی تاخیر نہیں کرتے۔ ووٹ کا سب سے زیادہ مذاق سیاست دان اڑاتے ہیں، ان کے ووٹ کی سب سے زیادہ بے توقیری سیاست دان کرتے ہیں۔ یہ اب عوام کو سوچنا ہے کہ انہوں نے اپنا مستقبل کن ہاتھوں میں دینا ہے۔ انقلابی و عوامی شاعر حبیب جالب نے کہا تھا کہ دس کروڑ یہ گدھے جن کا نام ہے عوام اب آبادی بائیس کروڑ ہو چکی ہے لیکن عوام اپنے حکمرانوں کو منتخب کرتے ہوئے آج بھی وہی سوچ رکھتی ہے جو دس کروڑ کے وقت تھی۔
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن ظلمتوں میں کھو گئی
عوام کو اپنی فکر جگانا ہو گی۔ یہ سیاست دان، مفاد پرست اور موقع پرست دہائیوں سے ان کا خون چوس رہے ہیں۔ نوچ رہے ہیں لیکن ان کا نہ دل بھرا ہے نہ جیب بلکہ یہ آج بھی للچائی نظروں سے ایوان اقتدار کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ جو باہر ہیں وہ عوام کو نوچنے کے لیے اپنی باری کے منتظر ہیں اور جن کو موقع ملا ہوا ہے وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ سستی گندم باہر بھجواتے ہیں پھر وہی گندم مہنگی خریدتے ہیں دونوں صورتوں میں عوام کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ اس کاروبار میں جتنا مالی نقصان ہو اس کا جرمانہ حکومت اور متعلقہ وزراء کو بطور جرمانہ ادا کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں کوئی ایسا کرتے ہوئے بھی سو بار سوچے۔ آٹا بحران ٹیسٹ کیس ہے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو بھی اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ انہیں وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہو گا کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ ایک طرف عوام بلبلا اٹھے ہیں اور دوسری طرف اقتدار کے بھوکوں نے جوڑ توڑ کا کھیل شروع کر رکھا ہے۔
اس سیاسی نظام کے کیا کہنے ہیں کہ گرمیوں میں بجلی، سردیوں میں گیس و آٹے کی قلت ہو جائے تو اس کی ذمہ دار بھی عوام ہے۔ عوام بجلی استعمال کرے تو بل بھرے، گیس کے بل ادا کرے، لائنوں میں لگ کر آٹا خریدے پھر بھی بحران کے ذمہ دار وہ ہیں اگر ہر ذمہ داری عوام کے سر ہے تو یہ حکمران کس مرض کی دوا ہیں کیا ان کے ذمہ صرف لوٹ مار اور عوام کی خواہشات کا خون ہے۔,

epaper

ای پیپر-دی نیشن