جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس: اٹارنی جنرل کی معذرت، فروغ نسیم کو پیشی کیلئے استعفیٰ دینا ہو گا: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو کوئی خطرہ نہیں۔ دوسری جانب اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف حکومتی ریفرنس میں پیش ہونے سے معذرت کر تے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ریفرنس کے حوالے سے پہلے ہی اپنی رائے دے چکا ہوں۔ دوسری جانب وفاقی وزیر فروغ نسیم نے حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے بطور وکیل پیش ہونے کی اجازت مانگی تو عدالت نے واضح کردیا کہ بطور وکیل پیش ہونے کیلئے فروغ نسیم کو اپنی وزارت سے استعفی دینا ہو گا۔ صدارتی ریفرنس کیخلاف فائز عیسی اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت ہوئی تو نئے تعینات ہونے والے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب اس عدالت میں دوبارہ آپکو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا عدالت کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا۔ وفاقی حکومت کو اس کیس میں وکیل کرنے کے لیے وقت چاہیے ہوگا۔ خالد جاوید خان نے کہا کیس کے حوالے سے پہلے ہی اپنی رائے دے چکا ہوں جس کے بعد میرا پیش ہونا مناسب نہیں۔ ذاتی طور پر کیس میں وفاق کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔ جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے التوا کی درخواست دائر کی ہے، اس لئے عدالت مناسب سمجھے تو کیس کی سماعت ملتوی کر دے، جس پر عدالت نے کیس ملتوی کرنے کی وفاق کی استدعا منظور کر لی۔ عدالت نے اپنے حکمنامہ میں قرار دیا کہ آئندہ سماعت تک وفاق کا نیا وکیل تیاری کیساتھ پیش ہو، اگر وفاق کا وکیل نہ آیا یا وقت مانگا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل دلائل دینگے۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم بھی عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ کیس میں اگر عدالت اجازت دے تو حکومت کی جانب سے بطور وکیل پیش ہونا چاہتا ہوں جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اگر آپ پیش ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں تاہم جسٹس قاضی محمد امین نے فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا آپ وزارت سے مستعفی ہو رہے ہیں؟ کیونکہ بطور وکیل پیش ہونے کیلئے آپکو اپنی وزارت سے استعفی دے کر اپنا لائسنس بحال کروانا ہو گا جس پر فروغ نسیم نے کہا وزارت سے استعفی نہیں دے رہا۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا مستعفی ہوئے بغیر آپ کو پیش ہونے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔ فروغ نسیم نے کہا مجھے ذاتی حیثیت میں فریق بنایا گیا ہے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ ذاتی حیثیت میں اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ وائس چیئرمین پاکستان بار عابد ساقی نے کہا پاکستان بار کونسل نے فرو غ نسیم اور انور منصور کیخلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی ہے جس پر ابھی تک نمبر نہیں لگایا گیا۔ عدالت حکم دے کہ پاکستان بار کونسل کی درخواست کو نمبر لگایا جائے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا عدلیہ کی آزادی بارے آپ کا بیان ہم نے دیکھا ہے، عدلیہ کی آزادی کو کوئی خطرہ نہیں، قرآن پاک قانون کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، سورت حجرات میں لکھا ہے گمان پر چلنا گناہ ہے، اور سورت حجرات آیت نمبر بارہ جاسوسی نہ کرنے کا کہتی ہے، ہم کسی بھی فریق پر الزام لگا کر ماحول خراب نہیں کرنا چاہتے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اس ملک میں آئین ہے، ہزاروں کالے کوٹ والے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اخبارات میں خبریں لگی ہیں کہ میں نے آخری سماعت میں بلند آواز میں بات کی، جس پر وکلا سمیت تمام افراد سے معذرت خواہ ہوں، اب جو ہوا اسے بھول جائیں اور آگے بڑھیں، کوشش کریں کہ دلائل کے دوران کسی فریق کی تضحیک نہ ہو، قرآن پاک بھی غصے پر قابو پانے کا حکم دیتا ہے۔ وائس چیر مین پاکستان بار عابد ساقی نے کہا ہماری توہین عدالت کی درخواست پر فریقین سے جواب مانگا جائے۔ فریقین عدالت اور قوم کو مطمئن کریں، جج محفوظ نہیں ہوگا تو کون ہو گا، وکلا کے اعتراض پر فروغ نسیم نے کہا وہ اپنے خلاف درخواست پر ہی عدالت میں پیش ہوں گے۔ اٹارنی جنرل نے مزید کہا عدالت کیس کی مزید سماعت کو 24 مارچ تک ملتوی کرے کیونکہ ایک بین الاقوامی کیس میں اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم کو بیرون ملک عدالت میں پیش ہونا ہے تاہم جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا 24 مارچ کو بینچ کا ایک رکن جج بھی موجود نہیں ہوں گے اس لئے کیس کی مزید سماعت کو 30 مارچ تک ملتوی کر رہے ہیں تاہم آئندہ تاریخ پر مزید التوا نہیں دیں گے۔