• news

دہلی فسادات، ہندو انتہا پسندوں کے مسلمانوں پر حملے جاری، ہلاکتیں 27

نئی دہلی (شنہوا+نوائے وقت رپورٹ) بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں متنازع شہریت قانون پر احتجاج کے دوران ہونے والے مذہبی فسادات کے نتیجے میں ہلاک افراد کی تعداد 27 ہوگئی جبکہ 200 سے زائد لوگ زخمی ہیں۔ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے رپورٹ کیا کہ فسادات کے نتیجے میں 23 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ حکام نے فسادات سے متاثرہ تمام علاقوں میں شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات بھی دے دیئے ہیں۔ تاہم پولیس کا دعویٰ ہے کہ صورتحال قابو میں ہے لیکن تناؤ کی فضا بدستور برقرار ہے۔ سکول بند ہیں جبکہ اسمبلی پر پابندی جاری ہے۔ اس ضمن میں دہلی پولیس کمشنر نے صحافیوں کو بتایا کہ اہلکاروں نے متاثرہ علاقوں میں رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں جبکہ 2 شمال مشرقی علاقوں کو مظاہرین سے خالی کروالیا گیا۔ اس ضمن میں دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں فوج تعینات اور کرفیو نافذ کیا جانا چاہئے۔ ہندوستان ٹائم کی رپورٹ کے مطابق دہلی کے وفاقی اکائی ہونے کی وجہ سے اروند کیجریوال کے پاس یہاں کا اختیار نہیں اور پولیس اور پبلک آرڈر براہ راست مرکزی حکومت کی وزارت داخلہ کے تابع ہیں۔اس سلسلے میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے ہسپتال انتظامیہ کے حوالے سے بتایا کہ زخمیوں کی تعداد 200 سے زائد ہے جس میں ایک چوتھائی پولیس اہلکار ہیں۔ اس ضمن میں ایک پولیس اہلکار نے فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں جہاں پولیس موجود ہے وہاں مظاہرین ان پر حملے کررہے ہیں اور جہاں موجود نہیں وہاں وہ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ بھارتی نشریاتی ادارے دی پرنٹ کی ویڈیو میں عینی شاہدین نے الزام عائد کیا کہ فسادات کرنے والوں کو پولیس کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ مشتعل افراد نے انہیں دھمکیاں دیں کہ ’اگر وندے ماترم کہو گے تو ہی یہاں رہ سکتے ہو ورنہ سارے جلا دیئے جاؤ گے۔ ویڈیو میں دی پرنٹ کی نامہ نگار سونیا اگروال نے بھی بتایا کہ جب وہ رپورٹنگ کے لیے علاقے میں آنے لگیں تو مشتعل افراد نے آنے سے روکا جو کسی کو بھی ریکارڈنگ کرنے نہیں دے رہے تھے۔ رپورٹر نے بتایا کہ ان سے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کیا وہ ہندو ہیں یا مسلمان ان کا نام پوچھا گیا۔ جبکہ موقع پر موجود لوگ ’جے شری رام‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ اس سلسلے میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو ایک رہائشی نے بتایا کہ علاقے میں شاید ہی کوئی پولیس والا موجود ہو، شرپسند علاقے میں گھومتے ہوئے لوگوں کو دھمکی دے رہے ہیں اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کررہے ہیں۔ جعفرآباد میں ایک ٹیلر نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لوگ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں، گولیاں چل رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ واپس اپنے گاؤں جارہے ہیں کیوں کہ یہاں کوئی کام نہیں تو ہم یہاں کیوں مرنا چاہیں گے، یہاں رہنے سے بہتر ہے کہ چلے جائیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو نے اپنی رپورٹ میں نامہ نگاروں کے حوالے سے دہلی فسادات کی منظر کشی کی ہے جس کے مطابق نامہ نگار جب تشدد سے متاثرہ علاقے میں کوریج کے لیے پہنچے تو وہاں ہجوم نے ان سے وہ موبائل فون چھیننے کی کوشش کی جس میں پرتشدد واقعات کی ریکارڈنگ موجود تھی۔ نامہ نگار کا کہنا تھا کہ اس وقت شمال مشرقی دہلی کو دیکھیں تو جیسے ’شہر بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہے۔‘ رپورٹ کے مطابق بی بی سی کی ٹیم نے جعفر آباد کے متاثرہ علاقوں کا دورہ بھی کیا تھا جہاں لوگوں نے ایک پوری مارکیٹ کو آگ لگا دی تھی ایک مقامی شخص نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان دکانوں میں زیادہ تر دکانیں مسلمانوں کی تھیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بی بی سی کی ٹیم نے جے شری رام کے نعرے بھی سنے۔ نامہ نگار کے مطابق بہت ساری جگہوں پر ہم نے 100 سے 200 افراد کا ہجوم دیکھا جن میں سے کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ترنگا (بھارتی جھنڈا) تھا، لوگ جے شری رام ، بھارت ماتا کی جے ، وندے ماترم جیسے نعرے بلند کررہے تھے جبکہ ہجوم میں شامل کچھ افراد 'ملک کے غداروں کو گولی مارو' جیسے نعرے بھی لگا رہے تھے۔‘ بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا تھا کہ ’اس دوران بعض مسلمان لڑکے بھی محلوں کی گلیوں میں کھڑے تھے جن کے ہاتھوں میں لوہے کی سلاخیں اور ایسی دوسری چیزیں تھیں۔‘ بھارتی اخبار دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق دہلی میں فسادات کے حوالے سے بھارت کی سپریم کورٹ نے پولیس کو کہا کہ اگر آپ کارروائی کرتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ عدالت عظمیٰ کے جج نے یہ ریمارکس ایڈووکیٹ امیت شاہ کی جانب متنازع شہریت قانون کے خلاف دہلی کے شاہین باغ میں مظاہرہ کرنے والوں کو دوسرے مقام پر منتقل کرنے کے لیے دائر درخواست کی سماعت میں دیے۔ جسٹس جوزف نے کہا کہ پولیس میں پیشہ ورانہ مہارت کا فقدان سب سے بڑی وجہ ہے، اگر آپ اشتعال انگیز بیانات دینے کے بعد لوگوں کو بھاگنے نہ دیتے تو یہ سب نہ ہوتا، اگر آپ قانون کے تقاضے کے مطابق کارروائی کرتے تو صورتحال مختلف ہوتی‘۔ دوسری جانب دہلی کی ہائی کورٹ نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ ’ایک چھوٹے ہسپتال‘ میں پھنسے ہوئے فسادات کے 22 متاثرین کو محفوظ راستہ فراہم کر کے بہتر سہولیات والے سرکاری ہسپتال میں منتقل کیا جائے۔نئی دہلی کی صورتحال پر بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے وزیر داخلہ امیت شاہد کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ امیت شاہ اور وزیراعلیٰ دہلی اروند کیجروال اتوار کے روز سے کہاں ہیں؟، وزیراعلیٰ کو متاثرہ علاقوں میں ہونا چاہیے۔سونیا گاندھی کا مزید کہنا تھا کہ ’کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کو یقین ہے کہ صورتحال سنگین ہے اور مناسب سیکیورٹی فورس کو تعینات کیا جانا چاہیے۔ادھر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے نئی دہلی میں امن قائم کرنے کی اپیل کی ہے‘ اپنی ایک ٹویٹ میں انہوں نے امن اور ہم آہنگی پر زور دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ نئی دہلی کے اپنے بھائی ‘ بہنوں سے بھائی چارے اور تحمل کی اپیل کرتے ہیں۔دوسری طرف نئی دہلی میں ہونے والے فسادات پر افسوس کا اظہار صرف پاکستانی اور مسلمان سیاستدانوں تک محدود نہیں رہا بلکہ امریکا کے بھی کئی سیاستدانوں اور قانون سازوں نے بھارت میں ہونے والے مذہبی فسادات پر افسوس کرتے ہوئے بھارتی حکام سے جلد از جلد امن بحال کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔امریکی خاتون سینیٹر اور آئندہ انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار 70 سالہ ایلزبتھ وارن نے نئی دہلی میں ہونے والے مذہبی فسادات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ٹوئٹ کی۔انہوں نے لکھا کہ اگرچہ بھارت جیسے جمہوری ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانا امریکا کے لیے اہم ہے تاہم اتنی ہمت اور سچائی ضرور ہونی چاہیے کہ اگر بھارت میں کچھ بھی غلط ہو رہا ہے تو اس پر کھل کر بات کر سکیں۔صدارتی امیدوار کا کہنا تھا کہ ہمیں بھارت میں مذہبی آزادی، اظہار رائے کی آزادی اور پْرامن مظاہرین پر کیے جانے والے تشدد پر کھل کر بات کرنا ہوگی۔ ادھر رکن کانگریس پرملا جیاپل نے بھی نئی دہلی میں مذہبی فسادات پر اظہار افسوس کیا اور اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’بھارت میں مذہب کے نام پر نہتے لوگوں کو مارنا خوفناک اور قابل مذمت ہے، جمہوری ممالک کو مذہبی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے کام کرنا چاہیے۔مسلم رکن کانگریس راشدہ طلیب نے بھی نئی دہلی میں مذہب کے نام پر مسلمانوں کے قتل عام کی مذمت کی۔راشدہ طلیب نے لکھا کہ اسی ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ دورے پر بھارت گئے مگر وہاں کی اصل کہانی نئی دہلی میں مذہبی بنیاد پر مسلمانوں کا قتل عام ہے۔ علاوہ ازیں امریکی قانون ساز ایلن لوونتھل نے بھی نئی دہلی میں مذہبی فسادات پر دکھ کا اظہار کیا اور لکھا کہ ’یہ سب کمزور اور اخلاقیات سے خالی قیادت کا نتیجہ ہے کہ بھارت جیسے ملک میں انسانی حقوق کی سرعام خلاف ورزی ہو رہی ہے'۔امریکی حکومتی ادارے ’امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی‘ (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’نئی دہلی میں مسلمانوں کو ہجوم کے شکل میں مارنے کی خبریں آرہی ہیں‘۔ ادارے نے لکھا کہ وہ مذکورہ معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے متعدد ٹوئٹس کرکے نریندر مودی حکومت سے کہا ہے کہ 'وہ پرتشدد ہجوم کو ختم کرکے مذہبی و اقلیتی آزادی کو یقینی بنائیں‘۔نئی دہلی بھارتی ہائی کورٹ نے دہلی میں مسلم کش فسادات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے حکمراں جماعت بی جے پی کے 3 رہنمائوں کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھارت آمد کے موقع پر دہلی میں مسلم آبادیوں اور مسجد پر مشتعل ہندوؤں کے حملے اور 20 سے زائد مسلمانوں کے جاں بحق ہونے پر ہائی کورٹ میں امن و امان کے حوالے سے سماعت ہوئی۔جسٹس ایس مورالی دھر اور جسٹس تلوانت سنگھ نے پولیس اہلکاروں پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1984 جیسے فسادات دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے، ججز نے پوچھا کہ کیا آپ نے بی جے پی کے مقامی رہنماؤں کی نفرت آمیز تقاریر سنیں؟ جس پر پولیس کمشنر نے جواب دیا کہ میں نے کپل مشرا کی تقریر نہیں سنی۔

ای پیپر-دی نیشن