ضلع رحیم یار خان بدستور محرومیوں کا شکار
احسان الحق
ihsan.nw@gmail.com
2018ء کے عام انتخابات کے بعد رحیم یار خان سے 2 سگے بھائیوں میں سے ایک کو وفاقی وزیر پلاننگ اور دوسرے کو صوبائی وزیر خزانہ بنائے جانے کے بعد توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ شاید اب رحیم یار خان کی محرومیاں ختم یا کم ہونے میں کچھ مدد مل سکے گی لیکن بد قسمتی سے 2 اہم ترین وفاقی اور صوبائی وزارتوں کا حامل ہونے کے باوجود ضلع رحیم یار خان بدستور محرومیوں کا شکار چلا آ رہا ہے ۔پنجاب کے میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں جن میں جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع کیلئے مخصوص نشستوں میں رحیم یار خان کا نام شامل نہ ہونے کے باعث یہاں کے طلباء و طالبات پہلے ہی مخصوص نشستوں پر کئی دہائیوں سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم چلے آ رہے تھے تاہم اب توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع کو ملنے والی تمام مراعات اب رحیم یار خان کو بھی حاصل ہوں گی لیکن رحیم یار خان کے عوام کو چند روز قبل ایک بار پھر اس وقت ’’بلیک لسٹ‘‘ میں شامل کر دیا گیا جب وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے شروع ہونے والے نئے پروگرام ’’احساس‘‘ جس کے تحت جس میں جنوبی پنجاب کے پسماندہ شہروں میں غریب عوام کو گائے ،بھینسیں ،بکریاں ،زرعی آلات اور چھوٹے دوکانداروں اور کاروباری اداروں کیلئے زرعی آلات وغیرہ فری دیئے جانے کا پروگرام بنایا گیا لیکن بدقسمتی سے ضلع رحیم یار خان کو ایک بار پھر مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا اور حیران کن طو رپر ڈویژن کا درجہ رکھنے والے شہر ڈیرہ غازی خان کے ساتھ جھنگ ،مظفر گڑھ اور لیہ کو تو شامل کر لیا گیا لیکن رحیم یار خان کو ایک بار پھر مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا جس سے یہاں کے غریب اور سفید پوش طبقے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔یاد رہے کہ قبل ازیں وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے صحت کارڈ پروگرام میں بھی ابتدائی طور پر رحیم یار خان کو شامل نہیں کیا گیا تھا لیکن بعد میں عوام کے احتجاج پر اسے دوسرے مرحلے میں شامل کر لیا گیا اور بہت ہی کم تعداد میں یہاں صحت کارڈ دیئے گئے جس سے یہاں کے غریب عوام اس سہولت سے فائدہ اٹھانے سے محروم دکھائی دے رہے ہیں ۔ضلع رحیم یار خان کے عوام کے ساتھ رکھے جانے والے امتیازی سلوک کا سلسلہ پچھلے کافی عرصے سے جاری تھا لیکن توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں شاید یہ سلسلہ ختم ہو جائے لیکن بد قسمتی سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔آپ سب کے علم میں ہو گا کہ رحیم یار خان اور اس سے ملحقہ اضلاع راجن پور ،کشمور ،گھوٹکی اور بلوچستان کے بعض شہروں سے ہزاروں افراد روزگار کیلئے مختلف خلیجی ممالک میں عرصہ دراز سے کام کر رہے ہیں اور وہ ہر سال وہاں سے لاکھوں ڈالر زر مبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں اور ان کی سہولت کیلئے ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور بزنس کمیونٹی کی اپیل پر چند سال قبل پی آئی اے نے رحیم یار خان سے ابوظہبی کیلئے ہفتہ وار دو پروازیں چلانے کا فیصلہ کیا تھا اور اطلاعات کے مطابق یہ پروازیں ہمیشہ مسافروں سے بھری ہوئی آتی اور جاتیں تھیں لیکن حیران کن طو رپر تقریباً ایک سال قبل یہ دونوں پروازیں اچانک معطل کر دی گئیں جو آج تک بحال نہیں ہو سکیں جس کے باعث یہاں سے خلیجی ممالک جانے والے افراد کو اب ملتان ،لاہور اور کراچی کا رخ کرنا پڑتا ہے جو وقت اور پیسے کے ضیاع کے ساتھ ساتھ انتہائی تکلیف دہ عمل بھی ہے ۔ضلع رحیم یار خان کی عوام کے ساتھ رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی داستانیں یہاں ختم نہیں ہوتیں ۔تقریباً 10 سال قبل خانپور میں 250 ایکڑ پر مشتمل ایک کیڈٹ کالج کی تعمیر کا آغاز کیا گیا تھا جس کا نام ابتدائی طور پر بینظیر بھٹو شہید کیڈٹ کالج تجویز کیا گیا تھا تاکہ یہاں کی عوام کو بھی بہترین تعلیمی سہولیات میسر آ سکیں لیکن 10 سال گزرنے کے باوجود اس کالج کا نام تو تبدیل کر کے چولستان کیڈٹ کالج کر دیا گیا لیکن اس کی تعمیر آج تک مکمل نہیں ہو سکی اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث شاید یہ کالج آئندہ 10 سال تک بھی مکمل نہ ہو سکے ۔خانپور کے بعد محرومیوں کی ایک لازوال داستان صادق آباد میں بھی پائی جاتی ہے جہاں علاقے کی عوام کیلئے کئی سال قبل ایک کارڈیالوجی ہسپتال کا قیام عمل میں لانے کی کوشش کی گئی تھی اور حیران کن طو رپر بلڈنگ کی تعمیر مکمل ہونے سے قبل ہی اس کی مشینری یہاں بھیج دی گئی لیکن بلڈنگ کی تعمیر مکمل نہ ہونے کے باعث یہ مشینری زنگ آلود ہونے کے بعد اب گلنے اور سڑنے کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہسپتال کی تعمیر مکمل نہیں کی جا رہی جس سے کروڑوں روپے کی مشینری خراب ہونے کے ساتھ ساتھ عوام انتہائی اہم صحت کی سہولتوں سے مسلسل محروم چلے آ رہے ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو چاہیے کہ وہ رحیم یار خان کو بھی ایک پسماندہ ضلع سمجھتے ہوئے اسے بھی ان مراعات کا حقدار قرار دیں جو خاص طور پر جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع کیلئے مختص کی جاتی ہے ۔