نیب کے باعث جی ایس پی پلس سٹیٹس ختم ہوا تو عوام معاف نہیں کرینگے: بلاول
اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نیب کی طرف سے اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی وجہ سے اگر پاکستان کو حاصل جی ایس پی پلس کا درجہ ختم ہوگیا تو پاکستانی عوام نیب کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ انسانی حقوق کی کمیٹی ممبران کے مطالبے پر لاپتہ افراد کے ایشو کے حوالے سے تمام صوبوں کے آئی جیز ، ہوم سیکرٹریز اور وفاقی سیکرٹری داخلہ کو آئندہ کمیٹی کے اجلاس میں طلب کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی وزارت کو پی ایس ڈی پی کے لئے ملنے والا فنڈ ناکافی ہے ان فنڈز سے پورے ملک کا تحفظ نہیں ہو سکتا۔ کرونا وائرس کے حوالے سے سندھ حکومت نے اپنی حیثیت کے مطابق اقدامات کئے ہیں لیکن ائیرپورٹس سندھ حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پارلیمنٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ایسے حالات میں اپنا خیال رکھنا چاہیے اور وفاقی حکومت کو اس حوالے سے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ بارڈرز کو تو سیل کیاگیا لیکن ائیرپورٹس پر فلائٹس کو کیوں نہیں روکا گیا۔ کرونا وائرس بزرگوں کیلئے زیادہ خطرناک ہے۔ پنجاب میں ن لیگ کی قیادت کے حوالے سے جو بات کی وہ 1990کی دہائی کی سیاست کے حوالے سے تھی اور یہ آف دی ریکارڈ بات کی گئی تھی۔ ن لیگ کی قیادت کے لئے جتنی میں آواز اٹھاتا ہوں اتنی ان کے اپنے لوگ بھی نہیں اٹھاتے۔ یورپی یونین کی رپورٹس میں نیب پر سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں کہ نیب اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے اور حکومت پر ہلکا ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ اب یہ چئیرمین نیب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنا موقف واضح کریں۔ اگر نیب کی وجہ سے جی ایس پی پلس کا درجہ چلا جاتا ہے تو عوام کبھی نیب کو معاف نہیں کرے گی۔ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں کوششیں کی گئیں جس کے نتیجے میں پاکستان کی یورپی منڈیوں تک رسائی ہوئی۔ میاں نواز شریف کی نوے کی دہائی کی سیاست کے حوالے سے ایک تبصرہ کیا تھا، پاکستان میں جو بھی سیاسی انتقام کا شکار ہے، ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں، جی ایس پی پلس سٹیٹس پاکستان کی معیشت کے لئے ایک بہترین موقع ہے، ہمارے جی ایس پی پلس سٹیٹس سے متعلق یورپی یونین کی رپورٹ کافی خطرناک ہے، پاکستانی معیشت اس پوزیشن میں بالکل نہیں کہ وہ جی ایس پی پلس کے سٹیٹس کا موقع گنوادے، یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کے حوالے سے نیب کے کردار پر سخت تنقید کی ہے،یورپی یونین نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان میں نیب کو صرف اپوزیشن کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان میں نیب حکومتی افراد پر نرم ہاتھ رکھتا ہے، نیب کے سیاسی انتقام کی یورپی یونین جیسے عالمی ادارے بھی نشان دہی کررہے ہیں، چیئرمین نیب کو ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں کہ آپ کے کردار سے ملکی معیشت کو نقصان ہورہا ہے، ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں کہ نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، کرونا وائرس سے عوام خوف زدہ ہونے کے بجائے احتیاطی تدابیر کو اختیار کریں حکومت کو ان پاکستانیوں کو بھی تسلی دینا چاہئے جو کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ملک نہیں آ سکے جب کرونا وائرس کا معاملہ سامنے آیا تو سندھ وہ پہلا صوبہ تھا کہ جس نے جناح ہسپتال میںآئسولیشن وارڈ بنایا۔ کوئی بھی صوبائی حکومت تنہا کرونا وائرس جیسی وباء کا مقابلہ نہیں کر سکتی وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ وبائی امراض کا مقابلہ کرے انہوں نے کہا کہ جب سندھ میں کرونا وائرس کا معاملہ سامنے آیا تو وفاقی حکومت کے کسی ذمہ دار تک رسائی نہ ہو سکی۔ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں اپنی حیثیت کے مطابق کرونا وائرس کیلئے اقدامات کر رہی ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے وفد کی ملاقات کی ۔ وفد نے بلاول بھٹو زرداری سے تعاون کی اپیل کر دی ۔وفد نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کونسل کو ختم کرکے آرڈیننس کے ذریعے ایک کمیشن بنانے کی کوشش کی، عدالت نے حکومتی کوشش کو غیرقانونی قرار دے دیا،پارلیمان اور عدالت میں پی ایم ڈی سی کے معاملے میں پی پی پی ہم سے تعاون کرے،بلاول بھٹو نے کہاکہ حکومت فوری طور پر پی ایم ڈی سی کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرے، حکومت فوری طور پر ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے پی ایم ڈی سی ملازمین کو بحال کرے، میں اپنی قانونی ٹیم کے ساتھ آپ سے تعاون کروں گا، میں دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو بھی پی ایم ڈی سی کے معاملے پر اعتماد میں لوں گا، ہم پاکستان کے ڈیڑھ لاکھ میڈیکل سٹوڈنٹس اور تین لاکھ ڈاکٹرز کا مستقبل تاریک نہیں ہونے دیں گے، پی ایم ڈی سی کی بندش کی وجہ سے ہزاروں ڈاکٹروں کی رجسٹریشن کا معاملہ التوا کا شکار ہے، تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پی ایم ڈی سی مسلسل بند ہو اور ڈاکٹرز دربدر رہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ایم ڈی سی ملازمین کی برطرفی آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے، پی ایم ڈی سی کے حوالے سے حکومتی آرڈیننس آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔ آرٹیکل 89 کا غلط استعمال کرتے ہوئے حکومت نے آرڈیننس فیکٹری کھول لی ہے۔