بھارتی سازشوں سے آگاہ، ہر وقت تیار، وطن پر آنچ نہیں آنے دینگے: فوجی ترجمان
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر) ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے خبردار کیا ہے کہ بھارتی اقدامات سے خطے کے امن کو خطرات درپیش ہیں۔ جنگ چھڑی تو اس کے بے قابو نتائج ہوں گے۔ دو ایٹمی طاقتوں میں جنگ کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن بھارت کا یہی طرز عمل رہا اور جنگ ہوئی تو اس سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا، دو طرفہ تباہی ہو گی۔ ہم ہر وقت تیار ہیں، وطن پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے میں کوئی تعطل نہیں ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ امن کا راستہ اپنایا جائے۔کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے حکومت ضرورت پڑی تو ہر مدد کیلئے بالکل تیار ہیں۔ جمعرات کی سہ پہر، اپنی پہلی پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے بھارت کے جارحانہ رویہ، امن کو لاحق خطرات، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال، انسداد دہشت گردی، افغان امن عمل سمیت تمام اہم موضوعات کا احاطہ کیا۔ انہوں نے ایک دعا سے اپنی پریس کانفرنس کا آغاز کیا اور کہا کہ ہماری 73سالہ تاریخ میں پاکستان پر جب بھی مشکل وقت آیا، عوام اور افواجِ پاکستان نے اس کا بڑی بہادری اور جرأت سے مقابلہ کیا۔ 14فروری 2019کو پَلوامہ واقعہ کے بعد انڈیا نے پاکستان پر بغیر کسی ثبوت اور بنا کسی تحقیق کے بے جا الزامات لگائے۔ سچ صرف ایک با ر بولنا پڑتا ہے۔ ہم مکمل طور پر تیار تھے جس میں سرپرائز کی ناکام کوشش کرنے والا دشمن خود سرپرائز ہوگیا۔ پاکستان نے جواب میں دِن کی روشنی میں دشمن کو بھرپور موثر جواب دیا۔ 27فروری کا دِن اب ہماری تاریخ میں ایک اور روشن باب ہے۔ جس پر ہر پاکستانی کو بجا طور پر فخر ہے۔ آج کا دِن تمام شہدا کے نام جنہوں نے1947سے لے کر آج تک دفاعِ وطن کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ہم ان تمام ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور شہدا کے لواحقین کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنے پیارے اِس وطن کے تحفظ پر نچھاور کر دیے۔27 فروری کا دِن یوم تشکر بھی ہے اور یومِ عزّم بھی۔ خطرات اندرونی ہوں یا بیرونی، جنگیں حبّ الوطنی کے جذبے، عوام کے اعتماد اور سپاہ کی قابلیت پر لڑی جاتی ہیں۔ بوکھلاہٹ میں اندرونی انتشار سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت کشمیر میں جو کھیل کھیل رہا ہے، پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت اِ س سے بخوبی آگاہ ہیں۔ پچھلے17سالوں کے دوران 2018 میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے باعث سب سے زیادہ اموات ہوئیں جبکہ 2019 میں سب سے زیادہ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئیں۔ پاک فوج نے کنٹرول لائن پر بڑھتی ہوئی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور دیتے رہیں گے۔ ہماری بھرپور جوابی کارروائی سے انڈین ملٹری کو بھاری جانی اورمالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ہم ایک ذمہ دار پروفیشنل فورس ہیں۔ صرف ملٹری اہداف کو ٹارگٹ کرتے ہیں جبکہ انڈین آرمی نہتے لوگوں پر فائر کرتی ہے۔ بھارت کی سول اور ملٹری قیادت کے حالیہ غیر ذمہ دارانہ بیانات اور فوجی تیاریوں کو ہم انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اگر خِطے میں جنگ چھڑی تو اس کے اس کے نتائج کسی کے قابو میں نہیں ہوں گے اور پھر کسی کے ارادے کو جنگ میں عمل دخل نہیں رہے گا۔ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک بین الاقوامی تسلیم شدہ تنازعہ ہے جس کے پرامن حل کیلئے اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجو د ہیں۔ گزشتہ 207 دِنوں میں مقبوضہ کشمیرکے عوام پچھلے73سال سے جاری ظلم وستم کی انتہا پر ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں زندگی مفلوج ہے اور کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ وہاں ایک مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ اب یہ مسئلہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان صرف نظریاتی یا جغرافیائی تنازعہ نہیں رہا بلکہ عالمی تاریخ میں انسانی حقوق کی پامالی کا سب سے بڑا اَلمیہ بن رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور انٹرنیشنل میڈیا نے شدید لاک ڈاؤن کے باوجود بھارت کی اس ریاستی دہشت گردی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔ عالمی طاقتوں اور اہم عالمی سربراہان نے بھارت کے اس ظلم وستم پر اپنی تشویش کا بَرملا اظہار کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل نہ صرف ہمارا قومی مفاد ہے بلکہ قومی سلامتی کا ضامن ہے۔ آزادی کی اس جدوجہد میں ہم کشمیریوں کے ساتھ تھے، ہیں اور رہیں گے۔ پچھلے 20سال میں افواج پاکستان پوری قوم قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے دہشت گردی کے خلاف ایک کامیاب جنگ لڑی ہے۔ ہم دنیا کا واحد ملک، قوم اورا فواج ہیں جس نے نہ صرف دہشت گردی کا مقابلہ کیا بلکہ خطے او عالمی امن کے لیے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 3 ایریاز میں کام کیے۔ یعنی فوجی کارروائی، قانون سازی اور قانون کا نفاذ اور عوامی حمائت۔ ردالفساد سب سے مشکل آپریشن اور دائمی امن کے لیے اہم ترین مرحلہ ہے۔ ردالفساد کا حتمی مقصد پرامن، مستحکم ایک نارمل پاکستان ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک سخت محنت سے حاصل کی گئی کامیابی ہے۔ ہم نے اس کامیابی کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ 80ہزار سے زیادہ جانی قربانیاں دیں اور معاشی طور پر 180بلین ڈالر کا نقصان اٹھایا۔ قبائلی علاقوں کا خیبر پی کے میں ضَم ہونا اور وہاں سول انتظامیہ کی عمل داری امن کی جیت ہے۔ پاکستان کی انٹرنیشنل اہمیت اور ساکھ مخالف قوتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود نہ کم ہوئی اور نہ کم ہو گی۔ دہشت گردی سے سیاحت کا سفر انتہائی متاثر کن اور صبر آزما تھا۔ امن کی جانب اس سفر میں پوری قوم اور میڈیا نے دہشت گردوں کے بیانیہ کو شکست دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ہم اقلیتوں اور ان کیلئے قومی پرچم میں سفید رنگ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور پاکستان کے لیے ان کی قربانیوں کو سلام پیش کر تے ہیں۔ اگر پاکستان کی سلامتی اور جغرافیائی سالمیت کو چیلنج کیا گیا تو افواجِ پاکستان کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گی۔ بھارت کے بغیر ثبوت الزامات کے باوجود پاکستان نے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر ہر قسم کی تحقیق کی پیشکش کی، اس کے باوجود انتہا پسند بھارتی ریاست نے 25 اور 26 فروری کی شب ایک بزدلانہ کوشش کی، دشمن جو سرپرائز دینا چاہتا تھا خود سرپرائز ہو کر گیا اور پاکستان نے 27 فروری کو دن کی روشنی میں دشمن کے دو طیارے گرائے، ہم نے بھارت کے ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کیا اور اسی بوکھلاہٹ میں دشمن نے اپنا ایک ہیلی کاپٹر بھی مار گرایا۔ دشمن کی خفیہ اور اعلانیہ تمام سازشوں سے بخوبی آگاہ اور جواب دینے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ آج کا دن ہمارے لیے یوم تشکر بھی ہے اور یوم عزم بھی، یوم تشکر اس حوالے سے آج کے دن افواج پاکستان قوم کے اعتماد پر پورا اتری اور یوم عزم اس حوالے سے کہ عزت اور وقارکی کوئی قیمت نہیں۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی اشتعال انگیزی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ مشرقی سرحد پر بھارت کی جانب سے مسلسل خطرات درپیش ہیں، اس سے بخوبی آگاہ ہیں، بھارت کا کھیل خطے میں امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ بھارت اندرونی شورش سے توجہ ہٹانے کیلئے کھیل کھیل رہا ہے۔ میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ رواں برس اب تک بھارت 84 بار سیز فائر کی خلاف ورزیاں کر چکا ہے جس میں ہمارے 2 شہری شہید اور 30 زخمی ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج اسکول جاتے معصوم اور نہتے معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشتی، 17 برسوں کے دوران پچھلے دو سالوں میں ایل او سی پر سیز فائر کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئیں، پاک فوج نے ایل او سی پر بھارتی حملوں کا منہ توڑ جواب دیا اور جواب دیتے رہیں گے، ہم ایک پروفیشنل آرمی کے طور پر بھارتی فورسز کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا حل نہ صرف پاکستان کے مفاد میں ہے بلکہ قومی سلامتی کا ضامن بھی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال پر بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے گزشتہ 207 روز سے کشمیریوں پر زندگی تنگ کر رکھی ہے، کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر اب بھرپور بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن چکا ہے، اقوام متحدہ نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ بھارتی قیادت کے بیانات غیر سنجیدہ ہیں لیکن ہم بھارت کی تمام تیاریوں اور دفاعی خریداریوں پر پوری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان 100 فیصد تیار ہے۔ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ پاکستان ہر طرح تیار ہے لیکن فیصلہ قیادت نے کرنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کس طرح لیکر آگے چلنا ہے۔ بھارت دنیا میں زیادہ دفاعی بجٹ رکھنے والے تین ممالک میں شامل ہے لیکن اس کے باوجود ہم 100 فیصد تیار ہیں، ملک پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے اور اس کا جواب ہم نے گزشتہ برس بھی بھارت کو دیا تھا۔ افغان امن عمل میں پیشرفت اور پاکستان کے کردار سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کا خواہاں پاکستان سے زیادہ کوئی اور نہیں ہو سکتا اور پاکستان نے افغان امن عمل کے حوالے سے بھرپور مصالحانہ کردار ادا کیا ہے۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے بہترین تعلقات ہیں۔ افغان امن کیلئے پاکستان نے بہترین طریقہ سے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی میجر جنرل افتخار بابر نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلا کامیاب اور موثر جنگ لڑی ہے۔ خطہ اور عالمی امن کیلئے پاکستان کی قربانیاں اور کردار ناقابل فراموش ہے۔ اس جنگ میں پاکستان نے انٹیلیجنس بنیادوں پر ڈیڑھ لاکھ آپریشن کئے۔ سترہ ہزار دہشت گرد پکڑے یا مارے گئے۔ سارھے چار سو ٹن گولہ بارود پکرا گیا۔ انسداد دہشت گردی کیلئے اہم قانون سازی کی گئی۔ القاعدہ کے ایک ہزار سے زائد دہشت گرد گرفتار کئے۔ اس دوران انسداد دہشت گردی کیلئے ستر سے زائد ملکوں کے ساتھ تعاون کیا۔ آپریشن ردالفساد، اسی آپریشن کی تازہ اور جاری کڑی ہے۔ یہ بہت مشکل اور اس آپریشن کا اہم ترین مرحلہ ہے جس کا حتمی مقصد، پرامن، مستحکم اور نارمل پاکستان ہے۔ اب ملک کا کوئی کونا ایسا نہیں جہاں سبز ہلالی پرچم نہیں لہرا رہا۔