دہلی: مکان پر پٹرول بم سے حملہ، 85 سالہ خاتون شہید، مرنے والے 42 ہو گئے، بھارت مسلمانوں کے تحفظ کیلئے اقدامات کرے: اقوام متحدہ
نئی دہلی(نوائے وقت رپورٹ) بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 42 ہو گئی ہے جبکہ مظالم پر عالمی میڈیا میں بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے، آج مزید دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ایوب شبیر نامی شخص کو ڈنڈوں سے تشدد کر کے مار دیا گیا،۔بیٹے کا کہنا تھا کہ والد کباڑیے کا کام کرتے تھے۔ صبح باہر نکلے تو مار دیے گئے۔ دوسری طرف مشتعل ہجوم نے ایک مسلمان کے گھر کو آگ لگا دی جس کے باعث 85 سالہ خاتون جاں بحق ہو گئی۔ اکبری نامی خاتون دم گھٹنے سے جان کی بازی ہار گئی۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہجوم نے پٹرول بموں سے گھر پر حملہ کیا اور گھر والوں کو اندر ہی محصور رکھا۔ بھارتی این ڈی ٹی وی کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 42 ہے، 38 کا انتقال جی ٹی بی ہسپتال میں ہوا، تین کا انتقال ایل این پی جی ہسپتال میں ہوا جبکہ ایک کی ہلاکت جگ پرویش چندرا ہسپتال میں ہوئی۔ ادھر بھارتی میڈیا نے 42 میں سے 28 ہلاک شدگان کی فہرست جاری کر دی ہے، مرنے والوں میں 20 مسلمان اور 8 ہندو ہیں۔ فسادات میں 350 سے زائد زخمی اب بھی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ بعض زخمیوں کی حالات تشویشناک بتائی گئی ہے۔ حالات قابو سے باہر ہونے کے بعد بھارتی فوجیوں نے گشت شروع کر دیا ہے، نئی دہلی میں ایسا لگ رہا ہے جیسے ہو کا عالم ہے اور مقبوضہ کشمیر والا منظر سامنے آ رہا ہے۔ دہلی کے شمال مشرقی محلے میں پرتشدد جھڑپوں کے دوران شہید ہونیوالی مساجد میں مسلمانوں نے پہلی بار نماز جمعہ ادا کی۔ جمعہ کو دہلی کے مضافات میں مسجد کی چھت پر تقریباً 180 مسلمانوں نے نماز جمعہ ادا کی۔ نمازیوں میں سے ایک محمد سلیمان کا کہنا تھا کہ اگر وہ ہماری مسجدوں کو جلائیں گے تو ہم انہیں دوبارہ تعمیر کر لیں گے اور دعا کریں گے۔ یہ ہمارا مذہبی حق ہے اور کوئی بھی ہمیں اس حق سے روک نہیں سکتا۔ دریں اثناء نئی دہلی میں ہونے والے فسادات کے بعد امتحانات کے التواء کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ نئی دہلی ہائیکورٹ نے حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس ہر حال میں کچھ کر کے دکھائے اور سکیورٹی میں اپنا کردار ادا کرے۔ دریں اثناء عالمی میڈیا بھی نئی دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات کو سامنے لے آیا ہے، جس کے بعد بین الاقوامی میڈیا پر بھی بھارت میں ہونے والے مسلم کش فسادات پر آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ مچل بچلیٹ نے مقبوضہ کشمیر اور نئی دہلی کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ بھارتی قانون نافذ کرنے والے ادارے طاقت کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے مظاہرین کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔ دریں اثناء جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے 43 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ مچل بچلیٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور متنازعہ شہریت بل کے مظاہرین پر طاقت کے استعمال پر بھارتی حکومت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وادی کشمیر میں انسانی حقوق معطل اور نئی دہلی میں آزادی اظہار رائے کو کچلا جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے مچل بچلیٹ کا مزید کہنا تھا کہ 5 اگست کے بعد سے وادی میں بنیادی انسانی حقوق معطل ہیں اور اب بھی 800 سے زائد رہنما اور شہری بغیر ٹرائل کے تاحال پابند سلاسل ہیں۔نئی دہلی میں متنازع شہریت بل کیخلاف مظاہرہ کرنے والوں پر ریاستی جبر اور طاقت کے استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی سربراہ نے کہا کہ مسلمانوں کی جانوں اور املاک کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
برطانیہ کے قائد حزب اختلاف جریمی کوربن نے نئی دہلی میں بلوائیوں کے ہاتھوں قتل عام پر تشویش کا اظہار کیا ہے اورکہاہے کہ وہ اپنے حق کے لیے مظاہرہ کرنے والوں کیساتھ کھڑے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق ایک بیان میں جریمی کوربن نے کہا کہ وہ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیوں کا معاملہ بھی اٹھاتے رہیں گے۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کی مرکزی مسجد میں نماز جمعہ کے بعد ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں نے نئی دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے خلاف شدید احتجاج کیا اور مودی مخالف نعرے لگائے۔ جبکہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد سے دورہ بھارت منسوخ کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ دہلی کی صورتحال کیخلاف ہزاروں بنگلہ دیشی مسلمان سڑکوں پر نکل آئے۔ احتجاج کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پتلے بھی نذر آتش کئے گئے جبکہ مودی مخالف نعرے بھی لگائے گئے۔ مظاہرین نے بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد سے مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کی نسل کشی رکوائی جائے اور مسلمانوں کو بچانے کے ساتھ ساتھ وہ اپنا آئندہ ماہ دورہ بھارت منسوخ کردیں۔