خونِ ناحق
’’دِل سے جو بات نکلتی ہے اثررکھتی ہے‘‘۔ جناب سعید آسی نے فصیح الرحمن کا نوحہ کیا لکھا، گویا قلم توڑ کر رکھ دیا۔ میں بھی مرحوم کوکچھ کچھ جانتا تھا، اور حق شناسائی کا سوچ ہی رہا تھاکہ آسی صاحب کا کالم ’’اُسے بہت جلدی تھی‘‘ پڑھنے کو ملا۔ جس نے بہتوں کو رُلا دیا۔ اور میں نے یہ سوچ کر قلم رکھ دیا کہ میرے لکھنے کو کچھ بچا ہی نہیں ، شاید عشرِ عشیر بھی نہیں۔
انگریزی صحافت کا دمکتا ستارہ فصیح ، جسے غم دوراں بھی تھا اور غم روزگار بھی۔ جسے سماج نے اس کا حق نہ دیا۔ وہ برداشت کرتا رہا اور بالآخر جوانی میں ہی ڈھے گیا۔ 46 کا سنِ آخر ہوتا ہی کیا ہے! میڈیا انڈسٹری کے کرونا وائرس نے قلم مزدوروں کو نگلنا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ میں غالباً یہ پانچواں شکار ہے۔ اس پیغمبرانہ پیشہ کاعذاب ٹل بھی گیا تو بھی ان آسودگانِ خاک کا خون کس پر ہو گا؟