’’کامیاب خارجہ پالیسی‘‘
عمران خان نے جنرل اسمبلی میں پاکستان کو تنہائی کے خول کی طرف دھکیلنے کی سازش کا ذکر کرتے ہوئے ان خدمات کا بھی ذکر کیا تھا جو پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مؤثر خدمات سرانجام دیں‘ تاہم عمران خان درحقیقت اس خطاب کے ذریعہ نہ صرف پاکستان کے وقار اور مضبوط تشخص کی بنیاد رکھ رہے تھے بلکہ اس کامیاب خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھ رہے تھے جس نے آگے چل کر خارجہ پالیسی کی صحیح سمت کا تعین کرنا تھا۔ اس کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا کہ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی دورے کے دوران پاکستان کے ساتھ شاندار تعلقات کا ذکر کیا۔ ٹرمپ کے اس بیان کا اثر ہندوستان کے مسلمانوں پر بجلی بن کر گرا۔ سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں پر مظالم اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ بھارت سیاہ دور سے گزر رہا ہے۔ بھارت میں پیدا ہونے والے ہندو اکثریتی نظریئے نے اقلیتوںپر ظلم کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے بارہا اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کو ناکام اور تنہا کرنے کی سازش ناکام ہو گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر مودی حکومت سٹپٹا کر رہ گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا ایک مقصد یہ بھی کھل کر سامنے آیا ہے کہ خطے میں امن اور سکون اور خصوصاً کشمیر کے حل کے سلسلہ میں گفت و شنید سے مسائل کا حل لازمی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بھارت نے ہمیشہ اقوام عالم پر یہ تاثر دیا کہ پاکستان دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہے۔ جنرل اسمبلی میں عمران خان نے جس سیاسی اور اخلاقی قوت سے اسلامو فوبیا کے خاتمے‘ مسئلہ کشمیر کا حل اور دہشت گردی کے خاتمے اور پاکستان کے کردار پر روشنی ڈالی تھی۔ اس سے ایک طرف تو وہ تاثر زائل ہوا تھا جو بھارت نے پاکستان کے خلاف روز اول سے ہی شروع کیا ہوا تھا۔ دوسرے یہ کہ اقوام عالم کے سامنے حقائق واضح کرنے کا مقصد ان غلط فہمیوں کا ازالہ تھا جو پاکستان کے بارے میں پائی جاتی تھیں۔ کسی بھی ملک کی مضبوطی کا انحصار دفاع‘ معیشت اور خارجہ پالیسی پر ہوتا ہے۔ دوسرے ممالک میں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں‘ لیکن خارجہ پالیسی میں تبدیلی نہیں آتی۔ہمارے ہاں خارجہ پالیسی میں ہمیشہ اتارچڑھائو آتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ہم خارجہ پالیسی کی راہیں متوازن طریقے سے استوار نہ کر سکے۔ موجودہ دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں نمایاں اور خوشگوار تبدیلی آئی ہے۔ چین کے ساتھ معاہدات اور روس کے ساتھ بہتر تعلقات کیساتھ ساتھ اسلامی ممالک کے ساتھ وسیع اور مضبوط پیمانے پر خوشگوار تعلقات کا آغاز ہوا۔ خصوصاً ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مثبت خطاب نے پاکستان کیلئے اپنے تشخص اور وقار کو منوانے کیلئے راہیں ہموار کر دی ہیں اور بھارت کے جھوٹے اور غلط پراپیگنڈے کا منہ بھی بند کر دیا ہے۔ اس سے قبل ہم اپنی خارجہ پالیسی پر نظر دواڑیں تو ناکامی اور نامرادی کی ہڈیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا جس کی وجہ یہ تھی کہ ہماری خارجہ پالیسی نے تجارتی اقتصادی اور ٹیکنالوجی کے حصول کو نظرانداز کر کے گداگری میں سب کچھ کھو دیا۔ ہم نے قومی مفاد کی بجائے دیگر ممالک کے مفاد کو ترجیح دی۔ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے میں بھارت کیساتھ ساتھ ہمارا اپنا بھی ہاتھ ہے۔ ہندو کی دشمنی اور کشمیر کا مسئلہ تو ہمیشہ ہمارے سامنے ہے۔ اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں خارجہ پالیسی کی صحیح سمت کی ضرورت ہے۔ جس کے تحت ایسی بین الاقوامی فضا تیار کرنا جس میں پاکستان اپنا وقار برقرار رکھ سکے اور امن و سلامتی کی طرف پیش قدمی کر سکے۔ ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں‘ لیکن ہمیں خود کو اکیسویں صدی کے حالات کے مطابق ڈھالتے ہوئے ایسے دوستوں کی ضرورت ہے جنہیں ہماری سلامتی اور خوشحالی سے دلچسپی ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گزشتہ ادوار کی خارجہ پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے عمران خان اس صورتحال کا بھی جائزہ لیں کہ کیا ہماری فارن سروس اکیسویں صدی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے اور اسے کس طرح مزید بہتر اور مضبوط بنایا جا سکتا ہے کہ صرف اور صرف قومی مفاد پروان چڑھے۔