خطا کی ہو سزا ایسی
کچھ دن قبل ایک واقعہ نے بہت کچھ سوچنے پر مجبورکردیا۔ یورپ کے ایک ملک میں ایک پندرہ سالہ لڑکا سٹور سے چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا پکڑے جانے پرگارڈ کی گرفت سے بھاگنے کی کوشش کی گارڈ سے خود کو چھڑانے کی مزاحمت میں سٹور کا ایک شیلف بھی ٹوت گیا، ظاہر ہے اْس کا گناہ دوگنا ہوگیا ایک تو چوری اوپر سے دکان کا مزید نقصان بھی ہوا ، اب ہونا یہ تھا کہ سزا بھی دوہری ملتی۔ جج نے فردِ جرم سنائی اور لڑکے سے پوچھا"تم نے واقعی کچھ چرایا تھا؟" بریڈ اور پنیر کا ایک پیکٹ، لڑکے نے اعتراف کرلیا، جج نے پوچھا" کیوں؟"مجھے ضرورت تھی ،لڑکے نے مختصر جواب دیا، خرید لیتے، میرے پاس پیسے نہیں تھے، جج دوبارہ گویا ہوا، تو گھر والوں سے لے لیتے، گھر پر صرف ماں ہے اور وہ بیمار ہے دراصل بریڈ اور پنیر اْسی کیلئے ہی تو چرائی تھی؟، اوہ جج نے اظہار افسوس کیا مگر تم کوئی کام کرلیتے، جج نے لڑکے کو مخاطب کرکے کہا، کرتا تھا ایک کار واش میں، ماں کی بیماری کی وجہ سے ایک دن کی چھٹی کی تو نوکری سے نکال دیا گیا۔ تو تم کسی سے مدد مانگ لیتے، جج نے کہا، صبح سے مانگ رہا تھا لیکن کسی نے میری مدد نہیں کی۔ جرح ختم ہوگئی۔ اب جج نے اپنا فیصلہ سنانا شروع کیا" چوری اور بریڈ کی چوری بہت ہولناک جرم ہے اور اس جرم کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ عدالت میں موجود ہر شخص مجھ سمیت اس چوری کا مجرم ہے، میں یہاں موجود ہر فرد اور خود پر بھی دس ڈالر جرمانہ عائد کرتا ہوں۔ دس ڈالر ادا کئے بغیر کوئی شخص عدالت سے باہر نہیں جاسکتا۔ یہ کہہ کر جج نے اپنی جیب سے دس ڈالرنکال کر میز پر رکھ دئیے۔ جج نے دوبارہ فیصلہ سنانا شروع کیا۔ اس کے علاوہ میں سٹور انتظامیہ پر1000ڈالر جرمانہ عائد کرتا ہوں، کہ اس نے بغیر تحقیق کئے ایک بھوکے بچے سے غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے اْسے پولیس کے حوالے کیا۔ اگر24 گھنٹے میں جرمانہ جمع نہ کرایا گیا تو کورٹ سٹور کو سیل کرنے کا حکم دے دے گی۔ فیصلے کے آخری ریمارکس یہ تھے۔ سٹور انتظامیہ اور حاضرین پر جرمانے کی رقم لڑکے کو ادا کرتے ہوئے عدالت اْس سے معافی اور طلب کرتی ہے۔ فیصلہ سننے کے بعد حاضرین تو اشک بار تھے ہی، مگر اس لڑکے کی تو گویا ہچکیاں بندھ گئیں۔
یہ ہے کفر کا معاشرہ اور کافر قومیں، ایک ہے ہماری ’’ریاست مدینہ ثانی‘‘ اور خلفائے راشدین سے خود کو مماثل قراردینے والے سیاستدان، میری طرح یقینا" آپ کے دلوں میں بھی اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا ہوگا۔ سچ بتائیں کیا ہمارا ملک ریاست مدینہ ہے اور ہم اصل مسلمان کی تمام خصوصیات رکھتے ہیں یا پھر جو کافیر ہیں انہوں نے اپنے ممالک کو مثالی ریاستیں بنا رکھا ہے اپنے اخلاق اور خوبیوں سے سب کو گرویدہ کر رکھا ہے۔ ہم ہر اچھائی میں بہت پیچھے کیوں ہیں۔ ہماری تربیت میں کہاں اور کیوں کمی رہ گئی ہے۔ یہاں بدقسمتی سے اگر چور عوام کے ہاتھ لگ جائے تو سرعام سڑک پر ہی اْس کا انصاف شروع ہوجاتا ہے۔ ہم سب جج بن جاتے ہیںہم اپنے گریبانوں کے بٹن بہت اوپر تک بند کرلیتے ہیں تاکہ غلطی سے بھی اپنے اندر جھانکنے کی نوبت نصیب نہ ہو، تب ہم بھول جاتے ہیں کہ اس جرم کے پیچھے کہیں نہ کہیں ہم خود بھی مجرم ہیں۔ ہم نے کسی مجرم سے اس کی مجبوری نہیں پوچھی اسے مجرم بنانے کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ معاشرہ یا حکومت؟ مہنگائی اور بے روزگاری یا بیگانہ اور خودغرضانہ روئیے؟ میں یہاں جرم کو بڑھاوا نہیں دے رہی اور نہ ہی کسی مجرم اور جرم کی پشت پناہی کر رہی ہوں؟ لیکن ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کا پس منظر اور اسباب بھی تو تلاش کرنا ہوں گے؟ ہمیں اپنی اخلاقی پسماندگی کی وجہ بھی تو تلاش کرنا ہوگی؟ ہمیں اپنے نصاب اور تعلیمی معیار کی پسماندگی کو بھی ماننا ہوگا جو آج تک دنیا کو اچھے شہری دے سکا نہ معیاری انسان جو انسانیت کی تمام کسوٹیوں پر کھرے اْتر سکیں۔ اس تعلیم نے تو ان معیارات کو کیا درست کرنا تھا ہمارے ظاہری حلیوں تک کو درست نہیں کیا۔کیا اس کے مظاہر آپ کو حج و عمرہ کے د وران بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ بے شمار لوگوں میں ہماری جاہلانہ عادات نے تو ہمیں کیا بدنام نہیں کر رکھا۔ اپنے بچوں کو دوسری اقوام کے عظیم رہنمائوں کے عظیم کارناموں سے روشناس کروائیے۔انہیں بتائیے کہ ان رہنمائوں نے کیسے کیسے انقلاب برپا کردئیے اور قوموں کو مثالی صف میں لاکھڑا کیا۔ ہمیں تعصب کی عینک اْتار کر دیکھنا ہوگا اور اپنے بچوںکو دکھانا بھی ہوگا۔ ان کو نہ صرف نسلی تعصبات سے نکالنا ہوگابلکہ معاشرتی علوم کے محدود چکروں سے نکال کر دنیاوی وسعتوں سے روشناس کروانا ہوگا۔ کیونکہ قومیں نہ معاشرتی علوم سے بنتی ہیں نہ ہی جھوٹی کہانیاں اور جھوٹے خواب دکھانے سے، اپنے ذہنوں کو وسیع کرکے وطن کی زیادہ خدمت کی جاسکتی ہے۔