ملک امپائر کی انگلی نہیں عوامی مرضی سے چلتے ہیں: بلاول
لاہور (نامہ نگار) چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک عوام کی مرضی سے چلے۔ ملک عوام کی مرضی سے چلتے ہیں، امپائر کی انگلی سے نہیں چلتے۔ معیشت بھی امپائر کی انگلی کے اشارے سے نہیں چلتی۔ ہم نے پی ٹی آئی اور آئی ایم ایف بجٹ کو معاشی قتل کا بجٹ قرار دیا۔ ہم اس بجٹ کو نہیں مانتے، ہم نے پہلے دن ہی اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا۔ اس وقت وہ حکومت ہے جو نہ تنخواہ میں اضافہ کر رہی ہے، نہ پنشن میں اضافہ کرتی ہے۔ اضافہ کرنا تو دور لوگوں کو پنشن اور تنخواہ نہیں مل رہی۔ اس حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دینے کا وعدہ کیا۔ وعدے کے برعکس اس حکومت نے لوگوں کے گھر گرائے اور روزگار چھینا۔ ہم نے پاکستان کو بچانا ہے، شہریوں کے معاشی اور انسانی حقوق کو بچانا ہے تو وہ صرف پی پی کرے گی۔ آپ صحافی میرا ساتھ دیں، یہ لمبی جدوجہد ہے۔ ہم نے کبھی چار قدم بڑھانے اور کبھی دو قدم پیچھے ہٹانے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز لاہور پریس کلب کے پروگرام ’’میٹ دی پریس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ لاہور پریس کلب اور صحافیوں کا جمہوری تحریکوں میں بڑا کردار رہا ہے۔ ہم نے ہر آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ ایوبی آمریت ہو، ضیائی یا مشرف کی آمریت ہم نے اپنے مسائل لاہور پریس کلب کے ذریعے عوام تک پہنچائے۔ اگر آج پاکستان میں جمہوریت ہے تو میرے صحافی دوستوں کا خون پسینہ اور محنت اس میں شامل ہے۔ آج ہر طرف سے جمہوریت اور آزادی صحافت پر حملے ہو رہے ہیں۔ قلم مزدور جمہوریت اور آزادی صحافت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ صحافی لڑیں گے، مگر یہ نیا پاکستان نہیں مانیں گے جہاں اظہار رائے کی آزادی نہ ہو۔ اس حکومت میں پہلا معاشی حملہ صحافت پر ہوا۔ بلاگرز اور ٹویٹ کرنے والے بچوں پر بھی وہی پابندی ہے۔ غیرجمہوری قوتیں پاکستان میں ہوں، امریکہ میں ہوں یا کہیں بھی ہوں وہ متحد ہو جاتی ہیں۔ ہم اس طرح متحد نہیں ہیں، ہمارے صحافیوں، بارز، سول سوسائٹی سے رابطے جاری ہیں۔ ہم ہر دور کی طرح جمہوریت کیلئے آواز بلند کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی انتقام عروج پر ہے۔ حکومت کا بیانیہ پہلے دن سے ناکارہ تھا۔ کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ نواز شریف جیل میں ہے یا لندن میں ہے وہ اس لئے ہے کہ وہ کرپٹ ہے۔ نوازشریف جیل یا لندن میں کرپشن کی وجہ سے نہیں عمران خان کی انا کی وجہ سے گئے۔ وہی گھٹن جو آج صحافتی اداروں میں ہے، وہ وہی گھٹن اسمبلی میں چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے آج تک پی پی پی کے رہنما جیل میں ہیں۔ خورشید شاہ جیل میں ہیں۔ خورشید شاہ کے مرحوم بھائی کو نیب کا نوٹس ملا ہے۔ سیاسی مخالف کے بیوی بچوں تو کیا مرحوم بھائی کو انتقام کا نشانہ جا رہا ہے۔ میاں محمد سومرو کو الیکشن میں ہرا کر سلیکشن میں شکست کھانے والے اعجاز جکھرانی کو نیب تنگ کر رہا ہے۔ جتنی کردار کشی راجہ پرویز اشرف کے خلاف ہوئی وہ سب کے سامنے ہے۔ ہم تو کہتے تھے کہ نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ سب سے پہلے زرداری صاحب نے کہا پھر کاروباری شخصیات نے باجوہ صاحب کے سامنے کہا۔ اب عمران خان نے بھی کہا کہ نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتا۔ اب کہتے ہیں صرف سیاستدانوں تک احتساب ہوگا۔ بزنس مین اور بیوروکریٹس تو کرپشن ہی نہیں کرتے۔ نیب کالا قانون ہے اس کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں احتساب کا ایسا نظام بنانا ہے جس میں سب کا برابر احتساب ہو۔ ہمیں آج بھی بھٹو شہید کے ریفرنس میں انصاف نہیں ملا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ انصاف دینے والے ادارے انصاف کے ادارے بنیں، ڈیم بنانے والے ادارے نہ بنیں۔اگر محترمہ اور بھٹو کو انصاف نہیں ملتا تو عام آدمی کو کہاں ملتا ہوگا۔ جس عام آدمی کا نانا اور ماں قتل ہوں ان کو کون انصاف دے گا۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کے نمائندے آکر آئی ایم ایف کے نمائندوں سے بات کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف غلط کر رہے ہیں بلکہ غلط راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ صرف نیب، ایف آئی اے کا ڈنڈا نہیں چلتا لوگوں سے بات کریں۔ سب چور ڈاکو نہیں ہمارا ٹیکس کا نظام کرپٹ ہے، اسے سٹرکچرل ریفارمز کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو کم ٹیکس رکھ کر اعتماد دیں تاکہ وہ نظام کا حصہ بنیں۔ سندھ حکومت نے باقی صوبوں سے سیلز ٹیکس کم رکھا، اعتماد بڑھا کر ٹیکس اثرات بڑھائے۔ ہم سب سے زیادہ ٹیکس بڑھاتے ہیں۔ جائیں واپس جاکر مذاکرات کریں عوام کے حق میں ڈیل کریں۔ نہیں کر سکتے توگھر چلے جائیں۔ ہم آکر دوبارہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔ یقین دلاتا ہوں سلیکٹڈ کی آخری باری ہے۔ اس کے بعد جو بھی حکومت آئے گی ،جو حشر سلیکٹڈ کا ہوگا دنیا دیکھے گی۔ جو معاہدہ ہوا اسے افغان لیڈر شپ اور عوام نے خوش آمدید کہا ہے۔ پی پی پی چاہتی ہے افغانستان کیلئے امن معاہدہ ہونا چاہیے۔ ہم مثبت رہنا چاہتے ہیں، مگر تنازعات اپنی جگہ کھڑے ہیں۔ ابھی چائے اور ہونٹوں کے درمیان بہت فاصلہ ہے۔ اگر آپ امن کی بنیاد واقعی امن اور افغان عوام کے مفاد میں کر رہے ہو۔ افغان عوام خواتین شہریوں کے حقوق کا سوچ کر کے عمل شروع کریں تو اس کا نتیجہ امن ہوگا۔ مگر اگر ایک عمل جو امریکی صدر کے ٹوئیٹ سے شروع ہو تو پھر اس پر شک ہے۔ عوام اور شہری پارلیمنٹیرینز شامل نہ ہوں تو شک ہے کہ کہیں یہ چل نہ سکے۔ اس معاہدے پر تحفظات ہیں مگر اس کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ عمران خان کو اس معاملے کا نہ کل پتا تھا نہ آج پتا ہے، نہ آنے والے کل پتا ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں سوشل ڈیموکریٹک نظام دینا ہوگا۔ جہاں عوام کے حقوق کی ذمہ دار ریاست ہو۔ ان شاء اللہ ہمیں موقع ملے گا تو اپنی معاشی پالیسی نافذ کر کے معیشت کو بہتر بنائیں گے۔ آپ مجھے سب سے لڑنے کی سیاست کیوں کروانا چاہتے ہیں۔ میں کسی کو برا بھلا کہہ کر نہیں اپنا نظریہ عوام میں لے جانے کی سیاست کرتا ہوں۔ آپ مجھے بتائیں کہ عمران خان کا اس پیس پروسیس میں کیا کردار ہے۔ دعا کریں امن عمل افغان عوام کیلئے ہو کسی کے الیکشن کیلئے نہ ہو۔ اب تو مذاق ہو گیا کہ مجھے لاہور کے دورے مہنگے پڑ جاتے ہیں۔ میں پنجاب آتا ہوں تو مجھے نوٹس ملتے ہیں اور وکیلوں کو فیسیں دینی پڑ جاتی ہیں۔ ہم نہیں کہہ رہے اب تو یورپی یونین کہہ رہا ہے کہ نیب انتقام لیتا ہے۔ شروع میںمیرے ساتھ کچھ لیفٹ کے دوست ناراض تھے کہ میں مودی کے خلاف کیوں بولتا ہوں۔ میں اس لئے کر رہا تھا کہ پی پی پی نے کشمیر کی تحریک میں حصہ ڈالا۔ مودی کوئی واجپائی نہیں گجرات کا قصائی ہے۔ ہم مسلمان سیاسی جماعتیں گجرات کے قصائی کو مانیں تو کیا ہوگا۔ افسوس کہ اس وقت کے وزیراعظم نے مودی کے حلف میں حصہ لیا۔ آج کے وزیراعظم نے مودی کے الیکشن مہم میں اس کی حمایت کی۔ عمران خان کا مسلسل بدلتا موقف کشمیر کے مسئلے کے حل میں رکاوٹ ہے۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ پانی کے مسئلے کا حل نکال کر پورے عوام کو پانی دیں۔ اپنی پوزیشن عالمی فورمز پر سنجیدگی سے رکھیں۔ پنجاب کا نام پنج دریا ہے تین دریا ایک آمر نے دشمن کو بیچ دیے۔ دوسرے آمر نے دریائوں کا کنٹرول دشمن کو دے دیا۔ ہمارے پاس پانی ہے نہیں، پیسہ ہے نہیں، ڈیم کہاں سے بنائیں گے۔ کالا باغ کالاباغ کرنے سے پانی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس موقع پر راجہ پرویز اشرف‘ قمر زمان کائرہ، چودھری منظور اور حسن مرتضی بھی موجود تھے۔ لاہور پریس کلب آمد کے موقع پر تھیلیسیمیا کی مریض بچی علوینہ حسن نے بلاول بھٹو کو پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔ لاہور پریس کلب باڈی کی جانب سے بلاول بھٹو کو اعزازی لائف ممبر شپ دی گئی۔