• news
  • image

بلاول بھٹو نے شیخ رشید بارے جو کہا درست کہا!!!!!!

بلاول بھٹو لاہور میں ہے وہ اس شہر میں جہاں سے کوئی تحریک چلتی ہے تو حکومتیں پہلے ہلتی ہیں پھر گرتی ہیں۔ لاہور کا کردار پاکستان کی سیاست میں انتہائی اہم ہے پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور نے جو عزت دی تھی وہ ہماری سیاسی تاریخ کا روشن چہرہ ہے۔ بلاول بھٹو زرداری لاہور چکر لگاتے رہتے ہیں وہ اسمبلی میں یا عوامی اجتماعات میں جب بھی بولتے ہیں تو حکومت پر کھلے الفاظ میں تنقید کرتے ہیں۔ حکومت پر بات کرتے ہوئے وہ ادھر ادھر کی بات کرنے کے بجائے سیدھی بات کرتے ہیں تاک تاک کر نشانے لگاتے ہیں۔ ان کے جملوں سے میڈیا کو نئی بحث ملتی ہے۔ وہ نوجوان ہیں سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں مستقبل میں کسی اہم ترین عہدے پر بھی ہو سکتے ہیں اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ سیاسی کیرئیر کے آغاز ہی میں اپوزیشن بنچوں پر موجود ہیں انہی بنچوں پر بیٹھتے ہوئے سیاست کی بنیادی تربیت ہوتی ہے۔ بلاول کو ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان کی جماعت سندھ میں حکومت بھی کر رہی ہے یوں انہیں صوبے کی سطح پر حکومتی معاملات کو سمجھنے کا موقع بھی مل رہا ہے۔
بلاول بھٹو لاہور میں صحافیوں سے مل رہے ہیں۔ یہ عوام اور حکومت تک اپنا پیغام پہنچانے کا سب سے بہترین، موثر اور تیز ترین ذریعہ ہے۔ کسی بھی معاملے میں عوامی رائے عامہ ہموار کرنے میں میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ بلاول بھٹو اس ہتھیار کو اچھے انداز میں استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی اپوزیشن کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے ہی اپنا پیغام گھر گھر پہنچایا تھا۔ گلی گلی تبدیلی کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں تو اس کا کریڈٹ میڈیا کو ہی جاتا ہے۔ آج اپوزیشن کو بھی اتنی ہی جگہ اور آزادی ملنی چاہیے جتنی دو ہزار تیرہ سے اٹھارہ کے دوران عمران خان اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ملتا تھا۔ یہ آزادی ذمہ داری کا تقاضا بھی کرتی ہے۔ ٹیلی ویڑن چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا پر خیالات کا اظہار کرنے والوں کو سنی سنائی باتوں یا افواہوں سے گریز کرنا چاہیے۔ بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں اس حوالے سے بہت اہم بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صحافیوں کے تعاون سے لمبی جدوجہد کا عزم رکھتے ہیں، ہم ہار نہیں مانیں گے، ایک قدم پیچھے آئیں گے تو دو قدم آگے بڑھیں گے۔ وہ کہتے ہیں صحافیوں، بلاگرز اور ٹوئٹر استعمال کرنے والے بچوں کو بھی سینسر شپ کا سامنا ہے۔ایسا نیا پاکستان نہیں مانتے جہاں اظہار رائے کی آزادی نہ ہو۔
بلاول بھٹو کے مطالبات پر غور کرنا اور جائز مسائل کو حل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اپوزیشن کو سننا اور غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اہمیت دینا حکومت کا فرض ہے۔ جب ہم کشمیر میں معلومات کے ذرائع بند ہونے پر آواز اٹھاتے ہیں تو ہمیں اپنے ملک میں بھی اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نا تو سب غدار ہیں نہ ہی سب کرپٹ ہیں سو منفی عناصر کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے سنجیدہ حلقوں کو ہدف بنانے سے ناصرف خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے بلکہ سوال کا قتل ہوتا ہے۔ سوالات اٹھائے جائیں تو جواب دینا زیادہ بہتر ہے۔ بلاول بھٹو جب میڈیا اور آزادی اظہار کی بات کرتے ہیں تو
انہیں ساتھ ہی یہ بھی پیغام ضرور پہنچانا چاہیے کہ ملکی سلامتی کے خلاف کام کرنے والوں کو آزادی اظہار کے نام پر نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ہمیں میڈیا اور سوشل میڈیا کی آزادی کے لیے ضرور کھڑے ہونا چاہیے لیکن ساتھ ہی اس آزادی کا غلط استعمال کرنے والوں کی نشاندہی بھی ہمارا فرض ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے وزیر ریلوے کو انتہائی سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے انہوں نے وفاقی وزیر ریلوے کو جن الفاظ میں یاد کیا ہے ہم وہ یہاں دہرانا نہیں چاہتے لیکن جو انہوں نے کہا ہے اس سے دو سو فیصد اتفاق ضرور کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ شیخ رشید کو بتا رہا ہوں وہ آخری مرتبہ سلیکٹ ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو کے منہ میں گھی شکر، اللہ کرے شیخ رشید کے حوالے سے ان کی یہ دعا جلد از جلد قبول ہو۔ شیخ رشید کو دوبارہ نمائندگی کا موقع نہ ملے۔ ایسا ہونے سے یقیناً بلاول بھٹو کو بھی دلی خوشی ہو گی۔ بلاول کا یہ کہنا کہ موجودہ دور میں سب سے زیادہ حادثات ہوئے ہیں لیکن اس ناقص کارکردگی کے باوجود وہ اپنے عہدے پر قائم ہیں جبکہ ماضی میں عمران خان ریل گاڑی کے حادثے کے بعد وزیر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے تھے۔ بلاول کا یہ مطالبہ بھی جائز ہے یہ حقیقت سے قریب تر بھی ہے کیونکہ جب بلور صاحب اور خواجہ سعد پر بے پناہ تنقید ہوتی رہی ہے تو شیخ رشید کو معافی کیسے مل سکتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ریلوے کے نظام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، حادثات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور جانی نقصان بھی ماضی کی نسبت زیادہ ہوا ہے اگر تباہی اور تنزلی ہی پیمانہ ہے تو پھر کیا انہیں ریلوے کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ شیخ رشید کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو اس حوالے سے ضرور تفصیلات لینی چاہئیں بالخصوص وفاقی وزیر ریلوے کے مالی معاملات پر گہری نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ تبدیلی، شفافیت اور انصاف کے نام پر پاکستان ریلویز میں ہو رہا ہے جب شیخ رشید نہیں ہوں گے تو اندازہ ہو گا کہ وہ کتنے نقصان دہ اور تباہی وزیر تھے۔ ایک طرف تو شیخ رشید کام نہیں کرتے تو دوسری طرف سیاسی طور پر زندہ رہنے کے لیے متنازع بیانات جاری کر کے ملک کے سب سے اہم ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ انہیں ایسی باتیں کرتے ہوئے افواج پاکستان کے وقار کا خیال رکھنا چاہیے۔ بیٹھے بیٹھے ایسے بیانات سے فوج کو سیاسی عمل میں شامل کرنے کی کوشش صرف اور صرف سیاسی مقاصد کے حصول کی ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ شیخ رشید کے ایسے بیانات پر افواج پاکستان کو بھی نوٹس لینا چاہیے۔ شیخ رشید ہی نہیں کسی بھی سیاست دان کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔ شیخ رشید جیسے سیاست دان ملکی سیاست کا منفی کردار ہیں ایسے موقع پرستوں کی وجہ سے ہی عوام سیاسی و انتخابی عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے آئی ایم ایف پیکج اور مہنگائی کے حوالے سے بھی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مہنگائی سب سے اہم مسئلہ ہے۔ اس میں کمی اور قیمتوں پر قابو صرف اور صرف مکمل توجہ اور یکسوئی کے ساتھ کام کرنے سے ہی ممکن ہے۔ تحریک انصاف میں عمران خان کے علاوہ کوئی دوسرا رکن اسمبلی ایسا نہیں جس نے مہنگائی کم کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کیا ہو۔ گذشتہ چند دنوں میں مہنگائی میں آنے والی کمی بھی خالصتاً وزیراعظم کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
حکومت کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ ایوان کو بہتر انداز میں چلانے، سیاسی رواداری کو فروغ دینے اور سیاسی استحکام کے لیے اپوزیشن کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے کام کرے۔
چلتے چلتے ایک مرتبہ پھر بلاول بھٹو زرداری کے شیخ رشید بارے خیالات پر آمین، آمین ثم آمین!!!!!!

epaper

ای پیپر-دی نیشن