کشمیر پر او آئی سی اجلاس بلایا جائے: شاہ محمود، وفدمقبوضہ وادی بھجوائیں گے
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) اسلامی تعاون تنظیم نے انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے اپنا وفد مقبوضہ کشمیر بھجوانے کا اعلان کیا ہے۔ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے تنظیم کے نمائندے خصوصی برائے جموں و کشمیر یوسف محمد الدوبے نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ دفتر خارجہ میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات بتائی۔ انہوں نے کہا کہ تنظیم مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پریشان ہے اور ہمارے ارکان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی مکمل حمائت کرتے ہیں۔ خصوصی نمائندہ نے کشمیر کی صورتحال پر تنظیم کے طرز عمل کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے سب سے اہم مسئلہ جموں و کشمیر ہے اور دورہ پاکستان کا مقصد بھی یہ پیغام پہنچانا ہے کہ تنظیم کشمیر کے موجودہ حالات پر بہت زیادہ پریشان ہے، او آئی سی مسلہ کشمیر کے حل کی مکمل حمائت کرتی ہے۔ تنظیم کے رکن ملک کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جموں و کشمیر کا دورہ کریں گے تاکہ ہم اپنی آنکھوں سے جا کر اصل صورت حال کا جائزہ لے سکیں اور وہاں حالات کی تفصیلی رپورٹ او آئی سی میں پیش کریں گے۔ ہم اپنے تمام اجلاسوں میںکشمیر کو ایجنڈے میں سرفہرست رکھتے ہیں۔ فلسطین ہے بالکل اسی طرح کشمیر کا مسئلہ بھی ہمارے ایجنڈے میں سرفہرست ہوتا ہے۔ نمائندہ خصوصی نے کہا کہ اسلامی کانفرنس تنظیم چالیس برس سے جموں و کشمیر کو باقاعدہ اہمیت دے رہی ہے اور اسی لیے 1994 میں او آئی سی کے ساتویں سیشن میں کشمیر کے حوالے سے خصوصی گروپ تشکیل دیا گیا تھا۔ انہوں نے دورہ پاکستان کیلئے دعوت پر تشکر کا اظہار کیا اور کہا کہ کشمیر میں جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں اس کے بارے میں ہمیں آگاہ کیا گیا۔ انہوں نے پاکستان کی جانب سے تنظیم کے ساتھ مستقل رابطہ کیلئے ایک خصوصی نمائندہ مقرر کرنے کے اقدام کو بروقت اور درست قرار دیتے ہوئے اس اقدام کی تعریف کی۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا کو بتایا کہ اسلامی کانفرنس تنظیم کے وفد کی پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین اور اراکان سے ملاقات ہوئی جنہوں نے انہیں مقبوضہ کشمیر کی بدترین صورت حال سے آگاہ کیا۔ وفد کی ایک خصوصی نشست آل پارٹیز حریت کانفرنس کے وفد سے ہوئی جس کی سربراہی عبداللہ گیلانی کر رہے تھے۔ سیکریٹری خارجہ نے انہیں ایک طویل ملاقات کے دوران مقبوضہ جموں و کشمیر کی تازہ صورت حال پر مفصل بریفنگ دی۔ انہیں بھارت میں نافذ امتیازی قوانین بالخصوص شہریت ترمیمی قانون اور نیشنل رجسٹریشن سٹیزن ایکٹ پر اپنی تشویش اور تحفظات سے آگاہ کیا۔ نمائندہ خصوصی کو چند دن قبل دہلی میں فسادات کی تفصیلات بھی فراہم کی گئی تھیں جس میں 46افراد لقمہ اجل بن گئے اور بے پناہ لوگ زخمی ہوئے، متعدد لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچا، مساجد کو جلایا گیا ، جس سے صرف پاکستانیوں کی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی۔ نمائندہ خصوصی کو بتایا کہ مسلمانوں کے حقوق کا دفاع اور اس کے لیے آواز بلند کرنا آپ کے ادارے کا فرض ہے۔ تنظیم کے وفد کو لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی خلاف ورزی اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے تفصیلات فراہم کی گئیں۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی اہمیت اور ان پر عمل درآمد کی ضرورت پر بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے، وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان او آئی سی کا بانی رکن ہے اور ہم اس ادارے کی اہمیت کے ہمیشہ قائل رہے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ سے بھی کہا ہے کہ معاملہ سنجیدہ ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ اس پر او آئی سی کے وزارت خارجہ کا خصوصی اجلاس ہونا چاہیے۔ بھارت کی پیدا کردہ صورت حال سے امن اور سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں سے ناروا سلوک پر پاکستان اور پوری مسلم اْمّہ کو تشویش ہے، نئی دہلی میں مساجد اور املاک کونقصان پہنچانے سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی قوانین پرتشویش ہے۔ کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب سے سیز فائر معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔دریں اثناء ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امن معاہدے کے لئے پاکستان نے جو کردار ادا کرنا تھا کردیا اور اب اگلا قدم اٹھانا افغانوں کا کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے کے بعد سب کا خیال تھا راستہ آسان نہیں دشواریاں آئیں گی لیکن امن کے راستے میں آنے والی دشواریوں کا حل نکالنا ہوگا‘ اس وقت افغان قیادت پر آزمائش ہے‘ دیکھتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امن معاہدے کے لئے پاکستان نے جو کردار ادا کرنا تھا کر دیا‘ اب اگلا قدم اٹھانا افغانوں کا کام ہے‘ اگلا قدم انٹرا افغان مذاکرات ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ قیدیوں کا تبادلہ امن معاہدے میں موجود ہے‘ رہائی یکطرفہ نہیں ہو گی‘ دونوں طرف سے قیدی رہا ہوں گے‘ افغان قیادت کو لچک دکھانی پڑے گی کیونکہ ہٹ دھرمی سے بات آگے نہیں بڑھے گی۔