• news
  • image

بنام ِکشمیر

آنکھ آنکھ آنسو، دل دل لہو، پتھروں کی صدائیں بھی وادیوں سے ہوتی ہوئی گنبد خضرا کے میناروں میں گونجتی ہیں، عورتوں کے سفاکانہ اور بہیمانہ قتل سے میناروں سے شعلے نکلتے ہیں، مائوں کا بین آسمان کا سینہ چیرتا ہے اور لاشیں دفنا دفنا کر انسان پتھر کا ہوچکاہے۔ بچوں کے جسموں کے ٹکڑے مائیں صلیبوں کے نیچے ڈھونڈتی ہیں اور ایک ہی کفن میں کئی گھرانوں کے لخت جگر کے ٹکڑے لپیٹ کر دفنا دیئے جاتے ہیں۔ زندہ انسانوں کی بستیاں کم ہوتی جارہی ہیں اور قبرستان آباد ہوتے چلے جارہے ہیں مگر جہاں ان سفاکانہ اور بربریت کے عمل سے وادی کشمیر کی وادیوں میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ وہاں پر عورتوں کے آنچل عَلم بن کر بربریت اور ہولناک دشمنوں کے سامنے لہراتے ہوں، جہاں برہان وانی جیسے جوان جسم آزادیِ حرمت ومذہب،آزادی زنجیر الم اور آزادی قلم کیلئے سروفروشی کی تمنا رکھتے ہوں۔ جہاں نوعمر بچے اپنی کاپیوں کے اوراق پر کشمیر بنے گا پاکستان تحریر کرکے سفاک ہندو کے سامنے سینہ تان کر نعرے لگاتے ہوں، وہاں کی خوبصورت وادیوں، اجلے آسمان، بلند پہاڑوں کو آزاد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، کشمیریوں کے دلوں کا الحاق پاکستانی عوام کے دلوں سے ہوچکاہے۔ کشمیر کے پْرکیف علاقے کی سُبک رْو خراماں خراماں چلتی بادسحری چراغ عشق کو اور بھی لو دیتی ہے، گرم لہو کے چھینٹے اس کی مٹی کی آبیاری کرتے ہیں پھر بھی کشمیر کی وادیوں میں ہندو آگ کی ہولی کھیلے یا بارود سے موت بیچے اس کے چمن کو کوئی نہیں اجاڑ سکتا۔یوں تو اسلام کے نور کی کرنیں سرزمین کشمیر پر بہت پہلے ہی پڑنا شروع ہوگئی تھیں۔ مگر اسلام کے پودے نے یہاں اس وقت تنومند درخت کی شکل اختیار کی جب1325 میں کشمیر کا حکمران راجہ رینچن حضرت شاہ میر کی خفیہ اور حضرت شرف الدین عبدالرحمن کی اعلانیہ تبلیغ اسلام کی برکت سے ایک مجلس میں حضرت شرف الدین کے ہاتھ پر اپنے خاندان سمیت اسلام لے آیا تھا۔ صوفیائے کرام کے اس شہر تصوف جو تبلیغ کا مرکز اور صوفیاء اور اولیاء کرام کا پڑائو ہے وہاں سے ہمارے انسانیت سے بھرپور مذہب اور وطن اسلام کشمیر کی عوام کا بازگشت دنیا بھر کے عزاداروں ان کی تنظیموں، ایوان اقتدار کے عہد خانوں اور اقوام متحدہ سے ہوتے ہوئے بین الاقوامی خدمتگاروں کے دروازے پر دستک دیتی ہے۔کشمیر کی وادیوں میں جہاد کیلئے سربکفن ہوکر خدا کا سپاہی یوں نکلتاہے جیسے کہ فلک پہ ستارے۔ سلگتے ہوئے اس کشمیر کو آزادیِ حق سے روشناس کرانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ جنت نظیر وادی اس لیے ہماری جانب نگاہیں لگائے بیٹھی ہے اور حکومت وقت سے سوال کرتی ہے کہ آخر کب تک ہمیں انتظار کرنا ہوگا پھر سے کب 1947، 14 اگست کا دن وقت کے پہیے میں دوبارہ لوٹ آئے گا اورکشمیر بھی پاکستان کا حصہ بنے گاکیونکہ یہ ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔ہمارے مجاہد اور مجاہدہ گنتی میں شمار نہیں کئے جا سکتے۔اس حوالے سے ہمارے نڈر، بیباک دلیر مجاہد یٰسین ملک جو ظلم وستم سہہ کر بھی ظلم کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں ان کی اپنی سادہ سی زندگی میں کوئی ناز نخرہ نہیں، ملک اپنی حفاظت کا ذمہ صرف اپنے خدائے پاک کو دیتے ہیں۔ ’’بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق‘‘ کے مصداق یٰسین ملک کا پورا گھرانہ جدوجہد آزادی کی جنگ میں پیش پیش ہے۔ مشعال ملک اسلام آباد کی پرسکون فضا کا آزاد پرندہ ہیں مگر ان کی لگن، جستجو جذبات میں ایک مجاہدہ کا کردار زندہ دیکھاگیا، انہوں نے اپنی آسودگی سے بھرپور زندگی کو نہ صرف خیرباد کہہ دیا بلکہ کشمیری خواتین اور بچوں پہ ہونے والے بہیمانہ مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اپنے شوہر یٰسین ملک کے شانہ بشانہ کام کرنے لگی ہیں، جان کس کو عزیز نہیں ہوتی اور وہ بھی اس عمر میں جب زندگی کا ہر رخ ہی حسین لگتاہے ایسے میں اپنی زندگی، جوانی، خوشیاں، آرام وآسائش لیادینا اعلیٰ صفت ہے۔ کشمیرکی آزادی مذہب اسلام کی آزادی ہے عوام کی آزادی انسانیت کے حقوق کی آزادی ہے،یہ بات سب پر عیاں ہے کہ بھارت جس ظالمانہ حکمت عملی پر عملدرآمد کررہاہے اسکی سفاکی کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی مگر اس کے باوجود پوری عالمی دنیا گواہ ہے کہ اہل کشمیر نے لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر بھی کبھی بھارت کی غلامی کو تسلیم نہیں کیا وہ بھارتی حکومت اور سفاک ہندوئوں کے اعلانیہ باغی ہیں وہ انکے سامنے جبرو استبداد کی پرواہ کے بنا ان کا جھنڈا اپنے پائوں تلے روندتے ہیں اور سینے پر برچھیاں آنکھوںمیں پیلٹ، سر میں گولیاں جسم پر ڈنڈے کھاتے ہیں۔ زندہ دفن ہونے کو تیار یہ کشمیری مسلمان بھارت کی بدبختی اور تباہی کا بہت بڑا پیغام اور مثال ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن