کہاں مسیحائی تلاش کروں۔۔۔۔؟
ڈاکٹر اور مریض کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن دونوں کا تعلق اچھا نہیں رہا۔ الزامات اور اعتراضات ہمیشہ ہر مریض کے ساتھ رہے ہیں۔ نجی ہسپتالوں میں مریض کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ آئے روز میڈیا میں ایسی خبریں آتی ہیں کہ جس سے مسیحائوں کی ’’مسیحائی‘‘ پر سنجیدہ قسم کے سوال اٹھ جاتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ طب سے جُڑے لوگ انتہائی عزت اور احترام کے قابل ہوتے ہیں۔ لیکن اُن میں موجود چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے اب طب کا پیشہ بدنام ہوتا جا رہا ہے۔ چند روز پہلے ہی کی بات ہے، ٹی وی، فلم اور تھیٹر کے مشہور اداکار عمر شریف کی شادی شدہ 34سالہ بیٹی حرا آزاد کشمیر کے ایک ڈاکٹر کی غفلت اور ناتجربہ کاری کی بھینٹ چڑھ کر موت کی آغوش میں چلی گئی۔ حرا کو گردوں کے ٹرانسپلانٹ کے لیے آزاد کشمیر کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے اس ٹرانسپلانٹ کے عوض عمر شریف سے 34لاکھ روپے لیے۔ لیکن حرا ڈاکٹر کی ناتجربہ کاری اور غفلت کی نذر ہو گئی۔ میڈیا نے اس واقعہ کی تشہیر کی تو ڈاکٹر پرچہ درج ہونے سے پہلے ہی بھاگ گیا اور اب تک مفرور ہے۔ ڈاکٹر ممتاز کے خلاف اس سے پہلے بھی غیر قانونی ٹرانسپلانٹ کے حوالے سے ایک مقدمہ درج ہے۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان کے طول و عرض میں ایسے بہت سے غیر قانونی ٹرانسپلانٹ سنٹر یا ہسپتال موجود ہیں جہاں اس قسم کا غیر قانونی دھندہ ہوتا ہے۔ لاہور میں اس وقت9 بڑے سرکاری ہسپتال ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر طبی مراکز بھی ہر یونین کونسل میں قائم ہیں مگر اس کے باوجود لوگ یہاں موجود ناکافی سہولتوں سے نالاں ہیں۔
اسی عدم اعتماد کے ساتھ جب مریض اور اُس کے لواحقین پرائیویٹ کلینک یا ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں تو وہاں موجود ڈاکٹر علاج اور ٹیسٹوں کے نام پر اس قسم کی ’’ڈکیتی‘‘ شروع کر دیتے ہیں کہ وہ مریض اور اُس کے گھر والوں کو اپنا سب کچھ بیچنا پڑ جاتا ہے وہ جمع پونجی سے ہی محروم نہیں ہوتے، قرض بھی اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو ہزاروں میں نہیں، لاکھوں میں ہوتا ہے۔یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ علاج کے نام پر ایک تماشا لگا ہوا ہے۔ لاہور میں زچہ بچہ کے ایک ایسے ہسپتال کا ذاتی طور پر واقفِ حال ہوں جہاں ایک غریب شخص نے نومولود بچے کے علاج کی غرض سے اپنے گھر کا تمام زیور بیچ ڈالا۔ ادھار بھی لیا لیکن بچہ پھر بھی صحت یاب نہ ہوا۔ بالآخر یہ غریب باپ اپنے بچے کو اٹھا کر چلڈرن ہسپتال لے گیا۔ جہاں اُسے داخل کرایا۔میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ پیشۂ طب سے وابستہ تمام ڈاکٹر ہی بُرے ہیں۔ یقیناً اُن میں اچھے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ شاید یہی وہ لوگ ہیں جن کی بدولت طب کا پیشہ زندہ ہے۔ میں ایک ایسے ڈاکٹر کو جانتا ہوں جو لاہور کا ایک معروف نیوروسرجن ہے۔ جب کوئی غریب مریض اُن کے پاس سرکاری ہسپتال میں علاج کے لیے آتا ہے تو وہ نہ صرف اُس کی تمام تر میڈیسن اپنی جیب سے خرید کر دیتے ہیں بلکہ ٹھیک ہونے تک ہر طرح سے اُس کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ یہ ایک مثال ہے ۔ نہ جانے اور بھی ان جیسے کتنے ہی ڈاکٹر، پروفیسر سرکاری ہسپتالوں میں موجود ہوں گے جبکہ نجی شعبہ کا بھی جوحال ہے، اُس پر بھی نہ تو سرکار کی توجہ ہے، نہ ہی ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کوئی نوٹس لیتا ہے۔
میرے بیٹے حماد کو شدید بخار کے باعث ایک نجی ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تو ذاتی طور پر یہ بات میرے مشاہدے میں آئی کہ پرائیویٹ ہسپتال کے ڈاکٹر مریض اور اس کے لواحقین کا کیا حال کرتے ہیں۔ میرے بیٹے کے مختلف ٹیسٹوں اور چیک اپ کی مد میں ہسپتال انتظامیہ نے صرف چند روز کا بل ایک لاکھ روپے بنا دیا۔ ہمارے ایک فزیشن دوست کو جب اس بابت پتہ چلا تو انہوں نے ایک میڈیسن لکھ کر دی جو صرف 25روپے کی آئی اللہ نے شفا دی ، دوا کے استعمال سے میرا بیٹا بالکل ٹھیک ہو گیا۔ ابھی حال ہی میں ہماری ایک عزیزہ کو ایک نجی ہسپتال میں علاج کے لیے لایا گیا، انہیں مہروں کا مسئلہ درپیش تھا۔ ہسپتال نے کوئی خاص ٹریٹ منٹ نہیں کیا اور چند گھنٹوں کا کم و بیش ایک لاکھ روپیہ لے لیا لیکن عزیزہ پھر بھی صحت یاب نہ ہوئی۔ بعد ازاں انہیں شیخ زید ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔شیخ زید ہسپتال نے بڑی توجہ کے ساتھ فوری طور پر C.T Scan، M.R.I.و دیگر ٹیسٹ ہنگامی بنیادوں پر بلا معاوضہ کئے اور ڈاکٹرز کی بورڈ میٹنگ بلا ئی اور علاج شروع کر دیا۔ شیخ زید ہسپتال سے مجھے یاد آیا چند ماہ قبل میں کمر درد کے علاج کے لئے شیخ زید ہسپتال گیا تو ایک نوجوان میری حالت دیکھ کر میری طرف تیزی سے بڑھا۔ اور مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ جہاں میرا اُس نے اپنی نگرانی میں میرا علاج کروایا اور واپسی پر وہیل چیئر کا بندوبست کر کے دیا۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کون ہیں؟ تو میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے بتایا کہ میرا نام ڈاکٹر کاظم ہے اور میں اسی ہسپتال میں تعینات ہوں۔کچھ ہسپتال واقعی ہی اچھے طریقے سے کام کر رہے ہیں جیسے کہ انمول ہسپتال لاہور جہاں سائنسی بنیادوں پر ایک نیا کامیاب تجربہ بھی کیا گیا ہے ۔