سیف سٹیز اتھارٹی کو مضبوط بنائیں!!!!
فیصل آباد میں سیف سٹیز اتھارٹی کا منصوبہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔ تین سال قبل شروع کیا جانے والا منصوبہ تکمیل کے لیے حکومتی توجہ کا منتظر ہے۔ حکومت عوامی فلاح کے ایسے منصوبوں کے لیے فنڈز جاری کیوں نہیں کر رہی یہ سوالیہ نشان ہے۔
پاکستان کا امن سیف سٹیز اتھارٹی سے مشروط ہے۔ ہمیں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں اس منصوبے کو پاکستان بھر میں پھیلانا چاہیے۔ دہشت گردوں، جرائم میں ملوث افراد کو پکڑنے اور امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال مسلسل بڑھایا جانا چاہیے۔ آج ہم پاکستان سپر لیگ میچز کی میزبانی کر رہے ہیں تو اس میں بڑا کردار اس منصوبے کا جس کے ذریعے چوبیس گھنٹے جدید کیمروں سے نگرانی کی جاتی ہے۔ جرائم پر قابو پانے اور منفی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو پکڑنے میں ٹیکنالوجی کا کردار اہم رہا ہے۔ اس ذریعے سے ناصرف ناقابل تردید ثبوت سامنے آتے ہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے دہشت گردوں کے منظم گروہوں کو پکڑنے اور انہیں انجام تک پہنچانے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ ملک میں امن و امان کی بہتر ہوتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں ملک بھر میں پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کے دائرہ کار کو بڑھانا ہے حتیٰ کہ پولیس کی تفتیش میں بھی ٹیکنالوجی کا عمل دخل بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سیف سٹیز اتھارٹی کی بہتر کارکردگی کو دیکھتے ہوئے پنجاب ہی نہیں ملک بھر میں ہنگامی بنیادوں پر نگرانی کے لیے کیمروں کا نصب کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں جائیں تو آپکو سڑکوں پر پولیس کم ہی نظر آئے گی لیکن وہاں نگرانی اتنی سخت اور قریبی کی جاتی ہے کہ کسی بھی واردات میں شامل تمام کردار کم وقت میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آتے ہیں۔ دبئی ہی چلے جائیں اتنا مصروف علاقہ ہے ہزاروں گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہیں۔ مختلف رنگوں، نسلوں اور ملکوں سے آئے لوگ یہاں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں لیکن مجال ہے کہ آپکو کہیں ناکہ نظر آئے کہیں پولیس شہریوں کو روک کر تلاشی لے رہی ہے ایسا کہیں دیکھنے کو نہیں ملے گا لیکن اسکا یہ مطلب یہ نہیں کہ وہاں کوئی دیکھ نہیں رہا ایک ایک حرکت پر نگاہ ہوتی ہے کہیں کوئی مسئلہ ہو لمحوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کارکن مصیبت میں پھنسے افراد کی مدد کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
عوام کی جلد مدد کرنے والا ایک منصوبہ ریسکیو 1122 ہم نے بھی شروع کیا تھا۔ عوامی فلاح کے اس منصوبے کے مثبت پہلوؤں سے سب نے فائدہ اٹھایا ہے۔ ہمیں ریسکیو 1122 کو بھی جدید طریقوں سے ہم آہنگ کرنے اور اسکی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح جب ہم سیف سٹیز اتھارٹی پر بات کرتے ہیں تو پاکستان میں امن و امان کا مستقبل ایسے ہی منصوبوں سے جڑا ہوا ہے۔ اپنے ہیومن ریسورس کو بہتر انداز میں استعمال کرنے اور نوجوانوں کو ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے ملک کو محفوظ بنانے کے لیے جدید انداز میں تیار کرنا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دن رات محنت سے ملک میں امن قائم ہوا ہے۔ ہم نے ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانی دی ہے، کھربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کیا ہے۔ لگ بھگ دو دہائیوں میں دہشت گردوں نے ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے ان امن دشمنوں کو قابو کرنے کا بہترین طریقہ جدید کیمروں سے نگرانی اور ٹیکنالوجی کا بہتر سے بہتر استعمال ہے۔ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی نے اب تک یہ کردار بخوبی نبھایا ہے۔ امن سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں ہے چند کروڑ روپوں کی وجہ سے فیصل آباد میں یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہو رہا ہے تو یہ ضلع فیصل آباد کے شہریوں کے جان و مال پر سمجھوتہ ہے۔ ایسے تاخیری حربوں سے نقصان صرف اور صرف عوام کا ہوتا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ پنجاب حکومت کو چاہیے کہ جلد از جلد اس منصوبے کو مکمل کرے۔ اب تک جن لوگوں کی وجہ سے تاخیر ہوئی ہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور فیصل آباد میں اسے شروع کرنے کے بعد اس حوالے سے دیگر اضلاع میں کام کیا جائے۔ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے راستے میں رکاوٹ بننے والوں کو گھر بھیجنا ہی بہتر ہے۔ ہمیں معاملات کو بہتر بنانے کے لیے مرحلہ وار تمام چیزوں کو ٹیکنالوجی کے حوالے کرنا ہے۔
خیبر پختونخوا میں ہسپتالوں کے متعدی اور طبی فضلے کو غیر معیاری انداز میں ٹھکانے لگانے سے شہریوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ ہسپتالوں میں فضلے کو ضائع کرنے میں قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ حیران کن اور پریشان بات یہ ہے کہ صوبے بھر میں تین سو نوے سے زائد ہسپتالوں کا دورہ کیا گیا اور تمام ہسپتالوں میں طبی فضلے کو غیر معیاری انداز میں ضائع کرنے کے نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔ ہسپتالوں کا فضلہ کھلی گاڑیوں میں منتقل کرنے سے ماحولیاتی آلودگی بھی پھیل رہی ہے۔ جب کہ زہریلا فضلا چوری ہونے اور اس سے چوری شدہ فضلے سے بچوں کے کھلونے فیڈر اور دیگر سامان تیار کیا جا رہا ہے۔ ہسپتالوں میں عوام کو سستی سہولیات تو نہیں مل رہیں لیکن ان ہسپتالوں سے عوام کو مفت میں بیماریاں ضرور مل رہی ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت کو اس کم ترین مسئلے پر جلد از جلد کارروائی کرنی چاہیے۔ سندھ میں بھی شہریوں کو متاثر کرنے والے بہت سے مسائل ہیں۔ کہیں پینے کا صاف پانی نہیں مل رہا تو کہیں ادویات کی دستیابی کا مسئلہ ہے، کہیں غیر معیاری ادویات ہیں تو کہیں ملاوٹ سے بھری چیزیں عوام کی صحت کو تباہ کر رہی ہیں۔ ان تمام مسائل میں صوبائی حکومتیں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہیں۔
وزیراعظم پاکستان ذاتی حیثیت میں ہر وہ کام کرنا چاہتے ہیں جس سے عوام کے لیے آسانی پیدا ہو لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ٹیم ابھی تک عوامی توقعات پر پورا اترنے اور بنیادی عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ وزیراعظم کو صوبوں کے ان مسائل پر بھی توجہ دینا ہو گی۔