اسلام بچوں پر تشدد کی اجازت نہیں دیتا، بل قومی اسمبلی میں کیوں پیش نہیں کیا جا رہا: اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (صباح نیوز+ این این آئی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے بچوں پر جسمانی تشدد کیس میں سیکرٹری قانون کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پرعدالت میں پیش ہونے کے لئے نمائندہ مقرر کریں اور بتائیں کہ بل قومی اسمبلی میں کیوں نہیں پیش کیا جا رہا،چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اسلام بچوں پر تشدد کی اجازت نہیں دیتا، ہمیں 97 فیصد مسلمانوں کو شرمسار ہونا چاہیے کہ بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے ۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گلوکار شہزاد رائے کی درخواست پر سماعت کی۔ معروف گلوکار شہزاد رائے اپنے وکیل شہاب الدین اوستو کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے جبکہ وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریںمزاری بھی عدالت میں پیش ہوئیں۔شہزاد رائے کے وکیل نے عدالت کو یاد دہانی کرائی کہ گذشتہ سماعت پر عدالت نے حکومت کو کچھ ہدایات جاری کی تھیں۔ سرکاری وکیل نے بتایا کہ وزارت داخلہ اور آئی جی کی رپورٹ میں کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں آئی۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ قانون سازی کا کیا ہوا؟۔ڈاکٹر شیریں مزاری نے بتایا کہ وزیراعظم نے بچوں کو جسمانی سزا پر مکمل پابندی کا حکم دیا ہے اور بل بھی کابینہ سے منظور ہو گیا تھا لیکن وزارت قانون نے کہا کہ یہ وزارت داخلہ کا اختیار ہے، وزارت داخلہ نے کہا کہ یہ معاملہ اسلامی نظریہ کونسل کو جانا چاہئے ۔وزیربرائے انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ اسلامی نظریہ کونسل نے بچوں کو سزا دینے پر پابندی کی مخالفت کی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب بل کی کابینہ نے منظوری دے دی تھی پھر وزارت داخلہ کو تو بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی۔ عدالت نے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ پاکستان پینل کوڈ کا آرٹیکل89 پڑھ کر سنائیں۔ وکیل شہاب الدین اوستو نے آرٹیکل89 پڑھ کر سنایا جس کے مطابق بچوں کے والدین یا ورثا اچھی نیت کے ساتھ تشدد کی اجازت دے سکتے ہیں۔ شہزاد رائے نے موقف اپنایا کہ والدین یا بچوں کے ورثا کو بھی کیسے حق ہے کہ وہ تشدد کی اجازت دیں۔ پینل کوڈ کی سیکشن 89 کی دوبارہ تشریح ہونے کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام بچوں پر تشدد کی اجازت نہیں دیتا، ہمیں 97 فیصد مسلمانوں کو شرمسار ہونا چاہیے کہ بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔عدالت سے استدعا کی گئی کہ بچوں پر تشدد کا بل دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی ہدایت دی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ بل کی منظوری دے چکی، بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ عدالت نے سیکرٹری قانون کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پرعدالت میں پیش ہونے کے لئے نمائندہ مقرر کریں اور بتائیں کہ بل قومی اسمبلی میں کیوں نہیں پیش کیا جا رہا۔قانون نہ ہو تو بھی بچوں کو ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا۔ جسمانی سزا دینے کا مائنڈ سیٹ تبدیل ہونا چاہئے۔ عدالت نے سماعت 30 مارچ تک ملتوی کر دی۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ وزارت تعلیم نے اسلام آباد میں جسمانی سزا پر پابندی لگا دی ہے۔ بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست کی حمایت کرتے ہیں۔ گلوکار شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ بچوں کو مارنا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا جنسی ہراساں کرنا۔ بل کا قومی اسمبلی میں جانا بہت بڑی کامیابی ہے۔