عورت مارچ؟
ایک مفکر کنفیوشس لکھتا ہے کہ کسی تہذیب یا معاشرے میں وہاں کے طبقات اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوں اور ان پر ہونے والے مظالم کے لیے بنیادی طور پر قانون سازی اور قانون ساز ادارے مضبوط ہوں تو کسی تحریک یا مارچ کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں گھریلو تشدد، جنسی تشدد، اور ظلم و ستم کا شکار عورت کس حد تک اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہے اور وہ کون سے ذرائع ہیں کہ اُن پر ہونے والے مظالم کا ازالہ ہو سکے۔ کیا عورت مارچ اُس عورت کے مسائل کے لیے موثر آواز ہے؟ جین مت، ہندومت اور بدھ مت کی تعلیمات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عورت کا کوئی مقام اور حیثیت نہیں تھی۔ وہ ناقابلِ اعتماد تھی اور جوئے میں ہار دی جاتی تھی ، جب اسلام آیا تو اس نے عورت کو بلندیوں تک پہنچا دیا اور قابلِ تکریم بنا دیا۔ ہمارا معاشرہ کئی صدیوں تک ہندوئوں کے زیر اثر رہا اور بہت سی باتیں لاشعوری طور پر ہمارے مزاج کا حصہ بھی بن گئیں۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں عورت کو وہ حقوق میسر نہیں ہیں اور اسلام نے اسے عطا کیے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے عورت کے حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں نے اس تحریک کو متاثر کیا ہے۔ ہمیں درحقیقت اُن مسائل پر قانون سازی کی ضرورت ہے جس سے عورتوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ ان کے اعتماد میں اضافہ ہو۔
تاریخ گواہ ہے کہ جن جن معاشروں میں ان تحریکوں نے جنم لیا سب سے پہلے اس کا اثر وہاں کی اخلاقیات اور تہذیب پر پڑا۔ آزادی کا مفہوم بھی اگر اخلاقیات کے پردے میں رہے تو اسکے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس نعرے سے ہٹ کر بھی بے شمار مسائل ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہو گا کہ عورت مارچ اور اس قسم کی تحریکوں میں کس حد تک اس خاتون کے مسائل کا ازالہ موجود ہے جو تشدد اور ظلم کو برداشت کر رہی ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس وہ لائحہ عمل نہیں ہے کہ ہم کس طرح سے آواز اُٹھا کر خواتین کے حقوق کی بات کر سکیں۔ اس کے لیے اُن مسائل سے آگہی ضروری ہے کہ جو ہمارے معاشرے کی عورت برداشت کرتی ہے اور جو تحریکیں اخلاقیات کا جنازہ نکال کر رکھ دیں سوشل کلچر کو متاثر کریں ۔ نوعمر ذہنوں کو بگاڑ کی طرف لے کر جائیں۔ اُن سے معاشرہ مادر پدر آزاد ہو جاتا ہے۔ فرد ، خاندان اور معاشرے کو حدود و قیود میں رکھنے کے لیے موثر قوانین ناگزیر ہوتے ہیں۔ اسلام نے شادی سے پہلے عورت کو باپ اور پھر شوہر کے تابع بنایا۔ سب سے پہلے تو اس سوال سے آگہی ضروری ہے کہ آزادی کیا ہے؟ زندگی کے کس میدان میں خواتین کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ اس کا ازالہ کیسے ممکن ہے۔ تیزاب گردی ، گھریلو تشدد اور وہ خواتین جو سسرال میں جلا دی جاتی ہیں، جیسے مسائل پر کیسے آواز اٹھائی جائے جب تک کسی بھی تحریک اور مارچ کا ایجنڈا مرتب نہیں کیا جاتا۔ مطلوبہ نتائج اخذ نہیں کئے جا سکتے۔ لیکن اگر تحریک کا مقصد مرد اور عورت کے درمیان اختلافات اور تفریط پیدا کرنا، بے راہ روی اور منفی رحجانات کا حامل ہے تو اس کے نتائج بھی سوسائٹی پر اتنے ہی سنگین مرتب ہوتے ہیں ۔ جہاں مذہبِ اسلام مرد پر عورت کے نان و نفقہ کی ذمے داری عائد کر کے اسے قوام بناتا ہے۔ وہاں عورت کے لیے بھی لازم گردانتا ہے کہ وہ خاوند کی اطاعت کرے۔ نبی آخرالزماں حضرت محمدؐ نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو کسی کے آگے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ ریز ہونے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ خرابی اور غلط فہمیاں اُس وقت بڑھتی ہیں کہ جب دونوں طرف سے کوتاہیاں سرزد ہو جائیں۔ جن معاشروں میں انسانی حقوق مضبوط ہوں اور ان حقوق کو سبوتاژ کرنے والوں کے لیے قوانین سخت ہوں تو مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔