مجھے اختلاف ہے
یہ جو آج عورت کی آزادی کی تحریک نے زور پکڑ رکھا ہے صدیوں پہلے تو ایسا نہیں تھا۔ انسانی تاریخ کا طویل عہد شکار کرنے اور غذا جمع کرنے کا ہے جو ایک طویل عرصہ تک قائم رہا۔ اْس وقت عورت اور مرد کے درمیان کوئی تفریق نہ ہوا کرتی تھی نہ قانون تھا نہ قانون دان ، نہ ریاستی ادارے تھے نہ ہی حکمران، لیکن عورت اور مرد کے درمیان اتحاد و اتفاق کا رشتہ تھا۔ دونوں زندگی گزارنے کیلئے یکساں جدوجہد کرتے تھے، میں حیران ہوں کہ آج ہم اْس دور کو جہالت کا دور کہتے ہیں اگرچہ میری نظر میں تو اْسے لبرل ازم کا دور کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ عورت اور مرد اپنے گروہوں میں ا?زاد ہوا کرتے تھے، پھر مادرسری دور کا آغاز ہوا جہاں عورت کو مرد پر برتری حاصل رہی، شواہد بتاتے ہیں کہ دراصل عورت کو مردکے برابر حقوق حاصل تھے یا اْسے برابری کی حیثیت حاصل رہی، مرد اور خاندان کے دیگر افراد اگرچہ اْس کی بات کو اہمیت دیا کرتے تھے، مساوات کے اصول کے تحت معاشرے میں توازن تھا لہٰذا اس بات کی تو نفی ہوگئی کہ مادرسری نظام میں عورت کو آقا یا مالک کی حیثیت حاصل تھی۔ وقت آگے بڑھا تو ریاست وجود میں آئی۔ مادرسری نظام نے دم توڑنا شروع کیا اور پدرسری نظام کا آغاز ہوگیا۔ لہٰذا مساوات کی جگہ عدم مساوات نے لی اور مرد نے خود کو حکمران سمجھتے ہوئے عورت کو زیر رکھنے پر عمل شروع کردیا اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہر دور اور ہر مذہب میں عورت مظلومی اور محکومی کا شکار رہی ہے کبھی اْس نے ذلت کا بوجھ بھی اْٹھایا اور کبھی اْسے زندہ دفن بھی کردیا گیا۔ کبھی شوہر کی وفات پر خود کو ستی کرنا پڑا تو کبھی غیرت کے نام پر قتل ِ عام ہوتا رہا اورہو رہا ہے۔ کبھی اسے بازاروں میں خریدوفروخت کے عمل سے بھی گزرنا پڑا۔ اسے شیطان کا ایجنٹ کہا گیا۔ کبھی بدی اور گناہ کا منبع بھی قرار پائی۔ اسے انسان کم سمجھا گیا اور استعمال کی چیز زیادہ سمجھا گیا۔اس بات میں بھی کوئی شائبہ نہیں کہ قدیم دور میں اسے مغلوب کرکے قبضے میں رکھا جاتا تھا۔August Bellنے عورت کی قدیم تاریخ کے بارے میں لکھا ہے کہ قدیم دور میں عورت کی حیثیت انتہائی درجہ کے استبداد سے دوچار تھی۔ جسمانی کے علاوہ اْسے ذہنی ظلم و جبر کا نشانہ بھی بنایا جاتا۔ اس کے بیٹے اس کے آقا ہوتے اور ملازمین سے قدرے بہتر درجہ پاتی۔یونان انسانی تہذیب وتمدن کا اور علم و فن کا گہوارہ مانا جاتا ہے۔ لیکن تہذیب اور علم وفن کے اس مرکز میں بھی عورت کو اچھا مقام حاصل نہ تھا اور نہ ہی اْس کا احترام کیا جاتا تھا۔ یونانی بیوی کا درجہ انتہائی پست تھا۔ طلاق کا حق حاصل تھا کہ لیکن عملا" اس سے کبھی فائدہ نہ اْٹھا پاتی تھی۔ یونانیوں کے بعد جس قوم کو زیادہ عروج حاصل ہوا وہ روم تھا۔ تہذیب و تمدن کے عکاس اس معاشرے میں بھی عورت کو اہمیت حاصل نہ تھی۔ مرد بیوی کو شک کی بنیاد پر قتل کردیتا تھا۔ خیر یہ قانون تو آج تک بھی رائج ہے اور لگ بھگ بہت سی اقوام میں رائج ہے اپنے ملک اور اس کی تاریخ کو ہی مدنظر رکھئے۔ یہاں بھی یہی کچھ ہوتا آیا ہے اور ہورہا ہے۔یورپ جو آج حقوق نسواں کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ انیسویں صدی میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب سے قبل عورت مرد کے ظلم وستم کا شکارتھی اور کوئی ایسا قانون بھی نہ تھا جو اْسے ایسی زیادتیوں سے پناہ دیتا۔ ایرانیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ عورت ناپاک ہے اور اس کی نظر بد کا اثر ہوتا ہے اس خیال سے وہ بچوں کو عورت کی نظروں سے بچاتے رہتے تھے۔ مصر میں عورت کو اعلیٰ مقام حاصل تھا لیکن بتدریج یہ مقام کم ہوتا چلا گیا اور باقی رہی عزت کی بات تو اس کی عورت کے حوالے سے تاریخ کے سیاہ ابواب سے آپ اور ہم سب ہی واقف ہیں۔ ظلم وجبر کا یہ عالم تھا کہ کمسنی میں ہی اس چراغ کی لو کو بجھا دیا جاتا تھا یہ طویل ترین بحث ہے جس کا ایک کالم تو متحمل نہیں ہوسکتا لیکن تاریخ پرسرسری نظر ڈالنے کا مقصد آج کے تناظر میں عورت کے مقام ومرتبہ کا جائزہ لینا تھا۔ آج این جی اوز کی نام نہاد گھروں سے لاپرواہ سڑکوں پر بے شتروحیا پھرنے والی عورت کے حقوق کی بات کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ آزادی کی بات کرتی ہیں۔ کیا عورت کی آزادی کا ایک معمولی مظاہرہ آپ اور ہم سب ٹک ٹاک پر ہر روز ملاحظہ نہیں فرماتے۔ کیا تین لاکھ سے زائد خواتین سوشل میڈیا پر اپنی نازیبا تصاویر شیئر کرکے خفت کا سامنا نہیں کر چکیں۔ مجھے اعتراض اس بات پر نہیں ہے کہ خواتین اپنے حقوق کیلئے آواز کیوں اْٹھا رہی ہیں بلکہ اعتراض اس بات پر ہے کہ وہ بے وجہ اور ناجائز آزادی کی علمبردار بن کر نئی نسل کی سوچ کو مزید تباہ کر رہی ہیں۔ مرد کے کردار کو یکسر نظر انداز کیسے کیا جاسکتا ہے۔ جن کی وجہ ہی سے کروڑوں خواتین محفوظ اور خوش وخرم زندگی بھی بسر کر رہی ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ بہت سے علاقوں میں عورت پر جبر ہورہا ہے۔ اسے وراثت بھی کیا جارہا ہے۔ استحصال کا طویل سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے۔ آواز اْن نا انصافیوں کے خلاف اْٹھائیے، ہمارے مذہب میں بھی عورت پر کوئی جبر نہیں آج وہ شوہر اور اْس کے خاندان کی خدمت جبر کے تحت نہیں معاشرتی قواعد وضوابط کے تحت کرتی اور اس میں تحفظ اور خوشی بھی محسوس کرتی ہے۔ بچے صرف مرد کی خواہش نہیں ہیں بلکہ اس میں بھی عورت کی شدید خواہش شامل ہوتی ہے۔ مارچ میں شامل ہونے کیلئے تھوڑی سی باغی اس عورت کو تھوڑے سے مزید حقوق دے کر اپنا بنانا کونسا مشکل ہے۔ لیکن بے راہ روی اور آزادی کے معنی ایک ہوگئے تو نئی نسل کو واپس لانا بہت مشکل ہوگا۔