58 ٹو بی کے خاتمے کے نقصانات!!!!
بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم میں صدر کے تمام اختیارات وزیراعظم کو اور وفاق کے زیادہ تر اختیارات صوبوں کو منتقل کیے گئے ہیں۔اس ترمیم میں ججوں کی تقرری کا اختیار پہلی بار پارلیمنٹ کو دیا گیا۔ حکومت کو بلیک میل کر کے انیسویں ترمیم کرائی گئی۔ وقت آنے پر سیاسی جماعتوں کو 19 ویں ترمیم پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔اٹھارویں ترمیم نے وفاق کو مضبوط کیا اور علیحدگی کی تحریکوں کی جان نکال دی۔ طلباء یونینز پر پابندی کے خلاف ہیں اور سندھ میں یونینز بحال کر رہے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری اٹھارویں، انیسویں، بیسویں اکیسویں، بائیسویں اور تیسویں سمیت جتنی مرضی ترامیم کی بات کر لیں جو مرضی کر لیں تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج آئین پاکستان ہی اصل شکل میں موجود نہیں ہے۔ ایسا آئین جس کے بنتے ساتھ ہی ترامیم کا سلسلہ شروع ہو جائے اور وہ سلسلہ آج بھی جاری ہے جتنی کوششیں آئین میں تبدیلی کے لیے کی گئی ہیں اس کا پچاس فیصد بھی آئین پر عملدرآمد کے لیے کی جاتیں تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ جب آئین اپنی اصل شکل میں ہی باقی نہ رہے تو اس سے کیا نتائج لیے جا سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھنے، مسائل کم کرنے اور قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے اور ذاتی اختلافات، ذاتی مفادات، لڑائی جھگڑوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قوم کے بہتر مستقبل کی خاطر مشترکہ حکمت عملی بنانا ہو گی۔ اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ آئین کی موجودگی میں دو مرتبہ مارشل لاء لگا نہ آئین روک سکا، نہ آئین بنانے والے روک سکے، نہ آئین کا تحفظ کرنے والے روک سکے نہ تشریح کرنے والے کچھ کر سکے بلکہ ہر دور میں کبھی آئین کو کاغذ کا ٹکڑا کہا گیا تو کبھی نظریہ ضرورت کے تحت بے دردی سے قتل کیا گیا۔ جب آئین پامال ہوا ہے اس وقت اداروں کا کردار کیا رہا اور اس وقت کس کس نے آئین کی بات کی۔ یہ سب اپنے اپنے مفادات کے لیے آئین آئین کی گردان کرتے ہیں جب وقت آتا ہے تو سب کو کرسی نظر آنا شروع ہو جاتی ہے پھر کبھی نظریہ ضرورت نظر آتا ہے تو کبھی آئین کاغذ کا ٹکڑا بنا دیا جاتا ہے۔ جہاں تک اٹھارویں ترمیم کا تعلق ہے اس کے بعد سے اب تک عوام کو کیا فائدہ پہنچا ہے الٹا صحت اور تعلیم کا بیڑہ غرق ہوا ہے یہ دو سب سے اہم شعبے ہیں اور صوبے اب تک اپنا کردار نبھانے میں ناکام رہے ہیں۔ سب سے بڑھکر ہمیں اس صورت حال میں ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط بنانے اور اعتماد سازی پر مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اداروں کے مابین ہم آہنگی اور تال میل کی کمی نظر آتی ہے۔ دہائیاں گذرنے کے بعد ہم آج بھی بہتر طرز حکمرانی کی تلاش میں ہیں اس کی بنیادی وجہ ہی سیاست دانوں اور اداروں کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد ہے۔ جب سیاست دانوں کا بس چلتا ہے وہ آئین کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں اور جب اداروں کی باری آتی ہے وہ اپنی سہولت کے لیے راستہ نکالتے ہیں۔ اس صورت حال میں اٹھاون ٹو بی کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اس کی موجودگی میں کم از کم غیر آئینی اقدامات کے لیے ایک رکاوٹ ضرور موجود رہتی ہے۔ سیاسی طاقتوں نے اکثر ترامیم اپنی سیاسی طاقت کو بڑھانے اور اختیارات میں اضافے کے لیے کی ہیں۔ عوام کی حالت نہیں بدلی البتہ سیاست دانوں، حکمرانوں کی حالت دنوں میں بدلی ہے۔ حکومتوں میں رہنے والے دنوں میں کیا سے کیا ہو گئے ہیں شاید ہی کوئی بچا ہو جس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے ہیں۔ اٹھاون ٹو بی کے خاتمے کے بعد ملکی قرضوں کے حجم اتنا بڑھا ہے کہ آج ہر پیدا ہونے والا بچہ مقروض ہے۔ بلاول بھٹو یہ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑا مغالطہ ہے کہ بیوروکریسی منتخب لوگوں کی نسبت زیادہ سمجھدار ہے۔ بلاول کا نقطہ نظر اور حقائق قطعی مختلف ہیں اصل مسئلہ سمجھداری کے بجائے تربیت اور شعور کا ہے۔ بیوروکریٹ باقاعدہ تربیت اور نظام کے ذریعے اوپر آتے ہیں جبکہ سیاست دان پیسے کے بل بوتے پر الیکشن جیت کو پارلیمنٹ پر قبضہ کرتے ہیں اگر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین بھی مناسب تربیت اور نظام سے گذر کر اسمبلیوں میں پہنچیں تو یہ مغالطہ نہ رہے۔ پھر نہ کسی کو برتری رہے گی نہ کسی کا احساس کمتری میں مبتلا ہو گا جب پہلی مرتبہ آفس سنبھالیں گے اور اتنی بڑی ذمہ داری ہو گی تو لوگ اس کا غلط استعمال کریں گے جب تک رکن اسمبلی کو سمجھ آتی ہے اس وقت تک مدت پقری ہو جاتی ہے ناتجربہ کاری اور تربیت کی کمی سے اس دوران جو نقصان ہوتا ہے اس کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔بلاول بھٹو زرداری کے اپنے بیانات ہی انکی سوچ کے ناپختہ ہونے کا اظہار کر رہے ہیں ایک طرف وہ اداروں کے کردار کی بات کر رہے ہیں تو دوسری طرف کہتے ہیں کہ طلبہ یونینز پر پابندی کے خلاف ہوں، سندھ میں یونینز بحال کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طلباء یونینز کا ملکی ترقی میں کیا کردار رہا ہے سوائے مار دھاڑ، لڑائی مارںکٹائی، ہوسٹلز پر قبضے، فائرنگ ، طاقت کا ناجائز استعمال، دھڑے بندی اور جرائم پیشہ سرگرمیاں تعلیمی سرگرمیوں پر حاوی نظر آتی ہیں۔ سیاست دان نوجوانوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ طلباء یونین تو طالبعلموں کے مسائل اور ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے لیے ہونی چاہیئں لیکن یہاں ایم ایس ایف، پی ایس ایف، آئی ایس ایف اور جمعیت کے نام پر جو کچھ ہوتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ طلباء یونینز ضرور ہونی چاہیئں لیکن ان کی حدود اور کردار کا تعین ہونا سب سے اہم ہے۔ طلباء یونین کے نام پر کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔