1945-46کا الیکشن
1940ء قرارداد پاکستان (لاہور) کے بعد مسلم لیگ عوامی تحریک بن چکی تھی اور پاکستان عوامی مطالبے کی صورت اختیار کر چکا تھا اس تحریک میںنوجوانوں کی شمولیت نے مختصر عرصے ہی میں کایا پلٹ دی ۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا ہر نوجوان دشمنوں کیلئے عذاب الٰہی ثابت ہوتا ۔یہ سربکف مجاہد برصغیر کے دور دراز علاقوں میں اپنے قائد کا پیغام لے کر پہنچتے وہاں کے مسلم عوام کو آزادی کی برکات اور ہندو انگریز گٹھ جوڑ کی مکروہ حرکات سے آگاہ کرتے ۔ انہی اللہ کے سپاہیوں کی شب و روزکاوش کے باعث مسلم لیگ مسلمانان ہند کی واحد نمائندہ جماعت بن کر کفار کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند ڈٹ گئی ۔ یہ سارا اعجاز حضرت قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت کا تھا ۔
نومبر 1945ء میں سنٹرل اسمبلی کے انتخابات کا مرحلہ آیا تو پنجاب میں چھ مسلم نشستوں میں سے تین پر مسلم لیگ بلا مقابلہ کامیاب ہوئی بقیہ تین میں سے لاہور کی نشست زیادہ اہمیت کی حامل تھی کیونکہ لاہور میں ہندو بنئے کے ہاتھ میںکاروبارزندگی تھا ۔ اسی طرح مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت میں دارالحکومت ہونے کے باعث سکھوں کا غلبہ بھی نمایاں تھا ۔ مسلم اکثریت ہونے کے باوجود الیکشن جیتنا ناممکن دکھائی دیتا تھا انہی حالات کے پیش نظر لاہور کی نشست کیلئے مسلمانان برصغیر کے بزرگ رہنما شعلہ بیاں و بے باک مقرر اور انقلاب پرور شخصیت مولانا ظفر علی خان کو امیدوار نامزد کیا گیا ۔ ہندو قیادت نے بڑی مکاری سے مولانا محترم کے مقابلے میں خاکسار اور احرار کے پلیٹ فارم سے ایک نومسلم خالد لطیف گابا کو کانگریس سمیت تمام مسلم لیگ مخالف قوتوں کا نمائندہ بنا کر میدان لاہور میں اتارا ۔ اس دوران ایم ایس ایف کا سالانہ اجلاس پشاور میں تھا جس کی صدارت حضرت قائد اعظم فرما رہے تھے اجلاس کا ماحول بڑا جذباتی تھا ۔ نئی آزاد خودمختار مملکت کے لئے جدو جہد اور منصوبہ بندی ہو رہی تھی ہر نوجوان ایمانی جذبوں سے سرشار اپنے قائد کے ایک اشارے پر جان نثار کرنے کے لئے بے تاب و بے قرار دکھائی دے رہا تھا ایسے میں حضرت قائد اعظم نے کہا " دیکھو !قوم نئے مرحلے میں داخل ہورہی ہے ۔ ہمیں ایک ایک سیٹ پر پوری قوت سے فائٹ کرنی ہے ۔ آپ مجھے الیکشن جیت کے دو میںآپکو پاکستان بنا کر دوں گا ۔ " حضرت قائد نے کھانے کے وقفے میں پنجاب سے آئے ہوئے طلبہ سے علیحدہ میٹنگ کی جس میں خصوصاً ہدایت کی گئی کہ لاہور کی نشست مسلم لیگ کے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے ۔ میرے بیٹو جان لڑادو ۔ قائد کے اس فرمان کے بعد اسلامیہ کالج لاہور کے طلبہ نے اپنے اوپر آرام کو حرام قرار دیتے ہوئے اس جانفشانی اور منصوبہ بندی سے انتخاب میں حصہ لیا کہ ہندو سکھ انگریز اور نیشنلسٹ مسلمان ششدر رہ گئے ۔ لاہور کی نشست کا دشمنوں کو بھی ادراک تھا کہ اگر الیکشن مسلم لیگ ہاری تو لاہور پاکستان میں شامل نہ ہوگا اور اس کا اثر پورے ہندوستان کے الیکشن پر پڑے گا لہٰذا خالد لطیف گابا کی تشہیر کیلئے نوجوان ہندو لڑکیاں تک یہ کہتی نظر آئیں کہ یہ شخص نیا نیامسلمان ہے ہارنا نہیں چاہیے مگر قدرت اپنے بندوں کی بندگی دیکھ کر مہربان ہوئی اور یہ الیکشن مسلم لیگ نے جیت لیا بلکہ بقیہ تینوںنشستوں پر بھی مسلم لیگ کامیاب ہوگئی ۔ ایم ایس ایف کی اس معرکہ آرا ء فتح کی دھوم اور گونج نے پورے ہندوستان کے انتخابات پر بڑے مثبت اثرات مرتب کئے ۔ایم ایس ایف کے اس کارہائے نمایاں پر خوش ہو کر حضرت قائداعظم 17جنوری 1946ء کو اسلامیہ کالج لاہور آکر طلبہ کو کامیابی پر مبارکباد دی۔یاد رہے اسی موقع پر خاکسار تحریک کے رہنما علامہ مشرقی ایک جلوس کی شکل میں وہاں پہنچے اور قریبی مسجد میں بے وقت اذان دی گئی جس پر حضرت قائد نے گھڑی دیکھ کر کہا یہ نماز کا وقت نہیں کوئی شرارت کر رہا ہے جس دوران قائد اعظم جلسے سے فارغ ہو کر روانگی کے لئے اپنی گاڑی تک پہنچے تو خاکسار سٹیج خالی دیکھ کر اوپر چڑھ گئے قائداعظم نے حکم دیا کہ یہ لوگ ہمارے سٹیج سے کوئی اعلان نہ کر پائیں لہٰذا مسلم طلبہ برق رفتاری سے سٹیج کی جانب لپکے اور خاکساروں سے سٹیج خالی کرالی ۔علامہ مشرقی کو نقص امن کے خطرے کے تحت عقبی راستوں سے لے جانا پڑا ۔حضرت قائداعظم کی بصیرت افروز قیادت کو ادراک تھا کہ لاہور کی نشست قیام پاکستان کیلئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ پنجاب مسلم اکثریت کا سب سے بڑا صوبہ تھا لاہور میں مسلم لیگ کی کامیابی فیصلہ کن حیثیت کی حامل ہے اور پنجاب میں کامیابی کا دارومدار بھی لاہور کی نشست پر کامیابی میں ہے لہذا لاہور سے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کی شاندار کامیابی جس میں مسلم لیگ نے 4096ووٹوں کے مقابلے میں کانگریس ، جمیعت علمائے ہند ، احرار و خاکسار کے علاوہ مسلم لیگ مخالف سیاسی قوتوں کے مشترکہ امیدوار کو 624ووٹ ملے یہ فتح مبین ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے امیدوآس کا پیغام ثابت ہوئی ۔ فیصل آباد کو ان دنوں مرکزی مغربی پنجاب کہا جاتا تھا حافظ عبداللہ اور شمال مغربی پنجاب (پنڈی) سے کیپٹن عابد حسین مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تاہم انبالہ سے مولانا غلام بھیک نارنگ مغربی پنجاب سے شیر شاہ جیلانی اور شمالی پنجاب سے نواب شیر علی پہلے ہی بلا مقابلہ منتخب ہو چکے تھے ۔ فتح لاہور کے باعث اور فاتح لاہور ایم ایس ایف اور مولانا ظفر علی خان نے پورے برصغیر میں طوفانی دوروں سے مسلم لیگ کی تحریک کو بام عروج پر پہنچا دیا جس کے باعث پورے ہندوستان میں سنٹرل اسمبلی کی کل تیس کی تیس مسلم نشستیں مسلم لیگ نے جیت لیں ۔(جاری)
٭…٭…٭
1940ء کے بعد برپا ہونے والی تحریک میں ایم ایس ایف کے ساتھ ساتھ حضرت قائد اعظم کے حکم پر جاری کر دہ مسلم جذبوں اور ولولوں کا واحد ترجمان اخبار نوائے وقت کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ نوائے وقت کے مدیرمرحوم حمید نظامی اور ان کے بھائی مجاہد پاکستان مرحوم مجید نظامی تحریکی کاموں میں مصروف بھی ہوتے اور نوائے وقت کی اشاعت بھی پوری تندہی اور بلند ہمتی سے کرتے رہے ۔ نوائے وقت ایک جانب مسلم لیگ کی تنظیم و ترتیب میں معاون تھا ۔ حضرت قائد کے فرمان کو مسلمانان ہند تک پہنچانے کا فریضہ ادا کرتا ۔ مسلم قو میں یکجہتی و اخوت کو فروغ دینے کی ذمہ داری پوری کرتا دوسری سمت تحریک پاکستان کی تاریخ کو محفوظ کرنے میں مصروف عمل رہا آج کی نسل کو تحریک حریت کی ہر گمشدہ تاریخ نوائے وقت اوراق میں دستیاب ہے جو یقینا کارعظیم ہے ۔ بلاشبہ نوائے وقت کے مدیر مکرم بزرگ گرامی مجید نظامی مرحوم تاریخ سازی کے عمل میں آخری دم تک گامزن رہے۔ 1945ء کے سنٹرل اسمبلی کے انتخاب کے بعد صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کا مرحلہ فروری 1946ء میں برپا ہوتا ہے اب مسلمانوں کے حوصلے بلند تھے ۔ہر طرف بیداری کی لہر نمایاںنظر آرہی تھی ۔ ہر سمت ایک ہی نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا ؟ لاالہ الااللہ ۔ سبز ہلالی پرچم کی حرمت مسلمانان ہند کو جان سے زیادہ عزیز تھی اس پر کٹ مرنے کے لئے کمر بستہ دکھائی دیتے تھے لہذا اسلامیہ کالج لاہور مسلمانوں کے مضبوط قلعہ کی تصویر پیش کر رہا تھا یہاں شیر دل پرنسپل ملک عمر حیات ان کے شاگرد حمید نظامی ،قاسم رضوی ، آفتاب قرشی ، ڈاکٹر ضیا ء الاسلام کی قیاد ت میں جنگ حریت لڑی گئی جس کے نتیجے میں مسلم لیگ نے پنجاب کی 86نشستوں میں سے 74پرکامیابی حاصل کی ساری جدوجہد میں کالج کے ہونہار طالب علم محمد مالک پیش پیش تھے۔ محمد مالک گوجرانوالہ کا رہنے والا تھا والدین حیات نہ تھے وہ اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ لاہور میں کالج کے قریب رہائش پذیر تھا لہٰذا کالج ہاسٹل میں ہونے والی ہر چھوٹی بڑی کارروائی میں حاضر وشامل ہوتا اسی لئے دوسروں سے زیادہ جذباتی اورمتحرک تھا ۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے مسلم لیگ کے ساتھ مل کر 10مارچ 1946ء کو عظیم الشان فتح کی خوشی میں جلوس نکالنے کا پروگرام بنایا ۔ جلوس لاہور کے مختلف علاقوں سے گزرتا ہوا سیکرٹریٹ پہنچا اس کے بعد رخ مزنگ کی جانب موڑ دیا گیا جلوس جب ایم اے او کالج جو ان دنوں سناتھم دھرم کالج کہلاتا تھا اور انتہا پسند ہندوئوں کے قبضے میں تھا پہنچا تو کالج کی چھت سے یک لخت خشت باری ہونے لگی جس سے بیشمار طلبہ زخمی ہوئے ایک اینٹ محمد مالک کے سر پر لگی جو جان لیوا ثابت ہوئی ۔ محمد مالک جمہوری جدوجہد کا پہلاشہید تھا جس کی موت نے پورے برصغیر میں کہرام مچادیا ۔ مسلمان گہرے رنج و غم کاشکار ہو کر غصے سے بے قابو تھے بہت ممکن تھا کہ ہندوستان میں مذہبی فسادات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے اس نازک صورت حال کو حضرت قائداعظم سے زیادہ کون بھانپنے کی صلاحیت رکھتا تھا ؟ آپ نے حالات کا دوراندیشی سے مطالعہ کرنے کے بعد مسلم قوم کو صبرو تحمل کی تلقین فرمائی ۔ آپ سمجھ رہے تھے اس موقع پر تدبر اور ہوشمندی کا ثبوت نہ دیا تو جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی عظیم کامیابیوں کو ہمارے دشمن اپنے ناپاک ہتھکنڈوں سے غارت کر دیں گے اور انگریز شورش و فسادزدہ ہندوستان کانگریس کے حوالے کر کے واپس چلے جائیں گے ۔ مسلم قوم ایک چھوٹی سی غلطی سے پھر غلامی کی طرف دھکیل دی جائے گی لہذا حضرت قائداعظم چند دنوں میںلاہور آئے اور مادر ملت فاطمہ جناح کے ہمراہ شہید محمد مالک کے مزار پر فاتحہ خوانی کیلئے تشریف لے گئے ۔ آپ کی فراست مدلل موقف کے سبب انگریز ہندو اور دوسری مسلم لیگ مخالف قوتوں کو پسپاہونا پڑا اور دنیا کے نقشے پر پاکستان نام کی ریاست معرض وجود میںآئی ۔
آج مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنان کو شاید علم ہی نہیں کہ جمہوری عمل میں جان دینے والا پہلا شہید محمد مالک کہاں سور ہا ہے ؟ خدارا ! مسلم لیگی ہونے کے دعویداروں اور نظریہ پاکستان کے نگہبانوں سے گذارش ہے کہ حضرت قائداعظم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے 10مارچ 1946ء کو شہید ہونے والے عظیم مجاہد محمد مالک کے مزار واقع نزد مزار غازی علم دین میانی صاحب قبرستان لاہو رمیں شہید کے ایصال ثواب کیلئے ضرور تشریف لائیںکیونکہ محسن شناس قومیں ہی باوقار زندگی کی مستحق ہوتی ہیں۔