بنگلہ دیش میں مودی کے خلاف مظاہرے اور ایران کا بارڈر!!!!
بنگلہ دیش میں بھارت کے وزیر اعلیٰ نریندرا کے خلاف مظاہروں میں شدت آئی ہے۔ خبر یہ ہے کہ موجودہ دور کے سب سے بڑے مسلم دشمن حکمران نریندرا مودی مجیب الرحمٰن کی 100 ویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لیے بنگلہ دیش آنے والے ہیں۔ بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے، ہندوتوا کے فلسفے کا پرچار کرنے والے، مسلمانوں کے لیے زندگی کو مشکل بنانے والے، انتہا پسند اور تعصب پسند ہندوؤں کی سرپرستی کرنے والے نریندرا مودی کی بنگلہ دیش آمد کے خلاف عوام میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ مودی کی آمد کے خلاف ان مظاہروں کا دائرہ پورے بنگلہ دیش میں پھیل گیا ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ مسلمانوں کے قاتل نریندرا مودی کا دورہ منسوخ کیا جائے ورنہ ان کی آمد پر ائیر پورٹ کا گھیراؤ کیا جائے گا۔
قن مظاہروں کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام نے بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو انتہائی سنجیدہ لیا ہے اور اس پر خاموش رہنے کے بجائے سخت انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ گوکہ بھارت اور کشمیر میں نریندرا مودی سرکار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف طاقت کے استعمال بنگلہ دیش کی حکومت کا موقف مختلف ہے اور وہ سرکاری سطح پر نریندرا مودی کے اقدامات کی حمایت ہی کرتے ہیں لیکن تصویر کا دوسرا رخ عوامی مظاہروں نے بہت واضح کر دیا ہے۔ مودی کے خلاف نفرت اور ردعمل اس کے مسلم دشمن اقدامات کی وجہ سے ہے۔ یہ مظاہرے بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کی بھارت نواز پالیسی کے خلاف ریفرنڈم ہیں۔
اس واقعے کا دوسرا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ نجیب الرحمن کی 100 ویں سالگرہ پر نریندرا مودی کو مدعو کیا جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ انیس سو اکہتر میں سقوط ڈھاکہ، پاکستان کو دولخت کرنے اور بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کے بڑوں کا بھارت کی طرف جھکاؤ بے معنی نہیں تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے نقشے کو تبدیل کرنے میں بھارت کا کتنا عمل دخل تھا۔ حالات اور واقعات خود ثابت کرتے رہیں گے وہ تمام چہرے خود بے نقاب ہوتے رہیں گے جنہوں نے اس سارے عمل میں منفی کردار ادا کیا ہے۔ مجیب الرحمٰن کی سوویں سالگرہ پر نریندرا مودی کا کیا کام ہے، مسلمانوں کے قاتل کو مجیب الرحمٰن کی پیدائش کی خوشی منانے کی کیا ضرورت ہے۔ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کے اس اقدام سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ان کے بڑوں نے کن کے اشاروں پر سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے قائد کی روح کو تکلیف پہنچائی تھی۔ ایسا نہیں کہ منفی عناصر صرف وہیں موجود تھے ہماری طرف سے بھی لوگوں نے منفی کردار ادا کیا ہے۔ ہماری طرف کے بہت سے کردار بے نقاب ہو چکے ہیں جو اب تک نہیں ہو سکے وہ بھی نہیں بچیں گے۔ قیام پاکستان کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے بے پناہ قربانیاں دیں، خون بہا، عزتیں پامال ہوئیں، ننھے منے معصوم بچوں کے گلے کاٹے گئے، طویل جدوجہد اور سازشوں کا مقابلہ کرنے کے بعد پاکستان کا قیام عمل میں آیا لیکن غیروں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے نام نہاد اپنوں نے معمولی فائدے کے لیے جو ظلم کیا ہے اس کا نقصان نسلیں بھگتیں گی۔
آج بھارت میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے جس طرح انہیں ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جا رہے اس نے ثابت کیا ہے کہ بابائے قوم محمد علی جناح کا فلسفہ،دو قومی نظریہ اور مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا قیام ضروری تھا۔ آج بھارت میں گائے کا گوشت کھانے، نماز پڑھنے، مسجد جانے والوں پر ظلم کیا جاتا ہے، اپنی پسند سے بھارت رہنے والوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے اور تو اور بھارت میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی کہہ رہے ہیں کہ جناح کا فلسفہ جیت گیا ہے۔ جب بھارت والے یہ مان رہے ہیں کہ جناح کا فلسفہ جیتا ہے تو پھر نریندرا مودی کا دورہ بنگلہ دیش یہ ثابت کرتا ہے کہ مجیب الرحمٰن کے پیچھے کون تھا۔
نریندرا مودی کے تعصب دنیا کو سب سے بڑا خطرہ کورونا وائرس سے ہے۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ متاثرہ ممالک کی طرف سے اپنے شہریوں کی آمدورفت کے حوالے سے کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔ ان خطرناک حالات میں حکومت پاکستان کی طرف سے ایران بارڈر کو کھولنا انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب ساری دنیا اس خطرے کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستان میں کورونا کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد سات ہو چکی ہے۔ان حالات میں تجارت کے لیے ایران بارڈر کھولنا کسی بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ کورونا وائرس کے معاملے چین کے بعد ایران سب سے خطرناک ملک ہے مالی بحران کی وجہ سے ایران نے کورونا وائرس کے بارے درست معلومات کا تبادلہ بھی نہیں کیا اور اس معاملے میں انہوں نے عالمی اداروں کی ہدایات کو بھی نظر انداز کیا تھا۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے تین ہزار چھ سو باون اموات واقع ہو چکی ہیں وائرس دنیا کے ایک سو دو ممالک تک پھیل چکا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ وائرس کی وجہ سے اٹلی کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد شہریوں کو سفری پابندیوں کا سامنا ہے۔ اٹلی یورپ میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے خطرناک وائرس کے شدید حملے کے پیش نظر اٹلی کے وزیر اعظم نے تعلیمی ادارے، جم،نائٹ کلب اور میوزیم سمیت دیگر عوامی مقامات کو غیر معینہ مدت تک بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ ان خطرناک حالات کو دیکھنے کے بعد بھی حکومت پاکستان کی طرف تجارت کی غرض سے ایرانی بارڈر کو کھولنا مناسب نہیں ہے۔ تجارت ضروری ہے لیکن انسانی جانوں سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں ہے۔ دنیا بھر میں متاثرہ ممالک کورونا کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے سخت فیصلے کر رہے ہیں۔ سفری پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں ان حالات میں ہم تجارت کی غرض سے بارڈر کھول کر مصیبت کو دعوت دے رہے ہیں۔ حکومت کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ ہمارے مسائل میں بدانتظامی سرفہرست رہتی ہے خدانخواستہ وائرس پھیل گیا تو بڑے جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دنیا پاکستانیوں کے داخلے پر پابندی عائد کرے گی۔ مصیبت میں جانے سے پہلے ہمیں اس سے بچنے کے لیے سمجھداری سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیس میں تجارتی تعلقات یا مالی فائدے کے بجائے عوام کی جان و مال کے تحفظ کو ترجیح دینے اور اس پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ حکومت ایران بارڈر کو کھولنے کے فیصلے ہر جلد از جلد نظر ثانی کرے۔ حکومتی شخصیات دنیا بھر میں اٹھائے جانے والے حفاظتی اقدامات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرے۔