• news

میر شکیل الرحمن 12 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

لاہور (اپنے نامہ نگار سے) احتساب عدالت نے 54 کنال اراضی کیس میں گرفتار میر شکیل الرحمن کو بارہ روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا ہے۔ احتساب عدالت کے جج چوہدری امیر محمد خان نے سماعت کی۔ نیب پراسیکیوٹر نے جسمانی ریمانڈ کی استدعاکرتے ہوئے کہا کہ میر شکیل کو قواعد کے خلاف 54 کنال زمین الاٹ کی گئی۔ قانون کے مطابق صرف پندرہ پلاٹس کی رعایت دی جا سکتی ہے۔ دسمبر 2019ء میں میر شکیل کے خلاف شکایت آئی، جس پرانکوائری شروع کی گئی۔ میر شکیل الرحمن کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ میر شکیل نے ایل ڈی اے سے زمین نہیں لی بلکہ پرائیویٹ افراد سے پراپرٹی خریدی۔ میر شکیل حکومتوں پر تنقید کرتے ہیں جس کہ وجہ سے اچانک گرفتار کر لیا گیا۔ ڈی جی نیب نے سوالنامہ کے جواب کو قانون کے مطابق نہیں پڑھا۔ میر شکیل ریکارڈ کے ساتھ لاہور بیٹھے تھے۔ چیئرمین نیب نے اسے دیکھے بغیر وارنٹ جاری کردئیے۔ چئرمین نیب تو اسلام آباد تھے وارنٹ گرفتاری پر انہوں نے کیسے دستخط کردئیے۔ نیب نے قانونی طریقہ کار اختیار کئے بغیر اچانک گرفتار کیا۔ کمرہ عدالت میں میر شکیل نے ساتھیوں کے سامنے سہولیات کی کمی کا شکوہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ نیب میں چھ فٹ کے کمرے میں بند کیا گیا۔ پیشی کے موقع پر صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے میر شکیل نے کہا کہ نیب میں اچھے افسر ہی نمایاں ہوں گے۔ مجھ پر پہلے بھی الزامات لگے اور بری ہوا۔ آپ سب جانتے ہیں کیا ہورہا ہے۔ گذشتہ روز نیب کی ٹیم نے میر شکیل الرحمن کو سخت سکیورٹی میں احتساب عدالت میں پیش کیا۔ اس موقع پر عدالت کے اطراف میں سکیورٹی اور پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔ میرشکیل الرحمن کی جانب سے ان کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے وکالت نامہ جمع کرایا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے میر شکیل الرحمن سے ملاقات کی اجازت مانگی جس پر عدالت نے ملاقات کی اجازت دے دی۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کچھ دیر کیلئے ملتوی کردی۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو آغاز پر میر شکیل الرحمن کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ نیب نے میر شکیل الرحمن کو کوئی نوٹس نہیں دیا۔ نیب کے پاس ان کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں۔ نیب کے چیئرمین نے وارنٹ گرفتاری پر دستخط کیے۔ ہمیں ابھی تک وارنٹ گرفتاری نہیں دیا گیا۔ اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میں مؤقف اپنایا کہ 34 سال بعد میر شکیل الرحمن کو گرفتار کیا گیا جو بدنیتی ثابت کرتا ہے۔ انہوں نے ایل ڈی اے سے زمین نہیں خریدی۔ زمین تیسرے بندے سے قانون کے مطابق خریدی گئی۔ میرے موکل کی زمین میں کسی بھی قسم کی دو نمبری نہیں ہے۔ میرے موکل کا نام میر شکیل الرحمن ہے اس وجہ سے انہیں گرفتار کیا گیا۔ میر شکیل الرحمن کے وکیل نے کہا کہ کچھ لوگ میرے موکل پر تنقید کرنے سے باز نہیں آتے۔ بزنس مین کو طلب کرنے سے پہلے قانونی طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا۔ خلاف قانون کارروائی نیب کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے۔ اعتزاز احسن نے عدالت میں کہاکہ نیب نے 28 فروری کو طلبی کا نوٹس دیا۔ نیب نے جب طلب کیا وہ پیش ہوئے۔ میر شکیل الرحمن نے کس طرح قانون کی خلاف ورزی کی۔ 12 مارچ کو وہ دوبارہ نیب کے سامنے پیش ہوئے۔ نیب نے کوئی بات نہیں پوچھی بس کہا چیئرمین نیب کا حکم ہے، آپ کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ میر شکیل الرحمن کہیں نہیں جارہے۔ نیب نے ان کا موقف نہیں سنا اور گرفتار کرلیا۔ شاہد خاقان عباسی کو بھی نیب نے اسی طرح گرفتار کیا تھا۔ گزشتہ روز میر شکیل الرحمن نیب کے سوالوں کے جواب لیکر گئے تھے۔ اس موقع پر عدالت نے نیب پراسیکیوٹر حافظ اسد اللہ سے سوال کیا کہ میر شکیل الرحمن کو گرفتار کیوں کیا۔ اس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ دسمبر 2019ء میں میر شکیل الرحمن کے خلاف تحقیقات شروع کیں۔ نوازشریف جب وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے ان سے 54 پلاٹ حاصل کیے۔ میر شکیل الرحمن نے غیر قانونی طریقے سے ایل ڈی اے کے پلاٹ اپنے نام کروائے۔ یہ ان پلاٹوں سے متعلق ریکارڈ فراہم نہیں کرسکے۔ نیب پراسیکیوٹر کے جواب پر میر شکیل الرحمن کے وکیل اعتزاز احسن نے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق ملزم تفتیش میں تعاون کر رہا ہو تو اس کی گرفتاری نہیں بنتی۔ اس لیے میرے موکل کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا اور اگر گرفتاری غیر قانونی ہو تو عدالت رہا کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ ایک منفرد کیس ہے جس میں نیب نے مجوزہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا۔ نیب کو ریمانڈ نہیں ملنا چاہیے۔ اس میں جوڈیشل ریمانڈ بھی نہیں ملنا چاہیے۔ جج صاحب آپ کو اختیار ہے۔ آپ میر شکیل الرحمن کو رہا کر سکتے ہیں اور آج انہیں رہا ہونا چاہیے۔ بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد میر شکیل الرحمن کا 12 روز کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں 25 مارچ تک نیب کی تحویل میں دے دیا۔ جبکہ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 25 مارچ تک ملتوی کردی۔ عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں میر شکیل الرحمن نے کہا کہ میں نے نیب کو کہا میں لکھ کر جواب لایا ہوں، بتا دیں کون کون سی چیز چاہیے، مجھ سے مزید سوالات پوچھے گئے، میں نے ان کے بھی مکمل جوابات دے دیے۔ انہوں نے کہا کہ دوسری مرتبہ گیا میری پوری بات نہیں سنی گئی، نیب نے مجھے مکمل سنا ہی نہیں، انہوں نے ریکارڈنگ کی ہوئی ہے، کاش نیب وہ ریکارڈنگ میڈیا کو دے۔ نیب نے میر شکیل کو سابق وزیر اعظم نوازشریف سے بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب جوہر ٹائون فیز۔II کے ایچ بلاک میں ایک ایک کنال کے 54 پلاٹس پر رعایت حاصل کرنے کے الزام میں جمعرات کو گرفتار کیا تھا۔ احتساب عدالت کے ایڈمن جج چوہدری امیر محمد خان نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف نے میر شکیل کو 54 پلاٹ دئیے، میر شکیل الرحمن نے مختار عام کے ذریعے ایگزیمپشن پر پلاٹ حاصل کئے، میاں نواز شریف نے میر شکیل کو محمد علی کے مختار عام پر 30 فیصد کوٹہ پر پلاٹ الاٹ کئے، پبلک آفس ہولڈر کی جانب سے 30 فیصد کوٹہ پر پلاٹ الاٹ کرنے کا معاملہ قابل تحقیقات ہے، اگر جرم ظاہر ہوتا ہے تو 34 سال پرانا معاملہ نیب کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہے، تفتیشی افسر کو نواز شریف کی جانب سے میر شکیل کو ایگزیمپشن پر ملنے والے پلاٹوں کی تحقیقات کے نتیجے کیلئے وقت کی ضرورت ہے۔ اس معاملے کی گہرائی تک جانے کی ضرورت ہے۔ میر شکیل الرحمن نواز شریف کی جانب سے ملنے والی غیرمعمولی ایگزیمپشن کی وضاحت دینے کے پابند ہیں۔ لہٰذا ملزم کی مقدمہ خارج کرنے کی استدعا قبل از وقت ہے۔ قبل ازیں نیب کی ٹیم میر شکیل الرحمن کو سخت سکیورٹی میں احتساب عدالت لے کر پہنچی۔ نیب کی طرف سے پراسیکیوٹر حافظ اسد اللہ اعوان جبکہ میر شکیل الرحمن کی طرف سے چوہدری اعتزاز احسن پیش ہوئے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کا 12روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں 25 مارچ تک نیب کی تحویل میں دے دیا۔ علاوہ ازیں علاوہ ازیں احتساب عدالت نے میر شکیل الرحمن کے جسمانی ریمانڈ کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ تحریری فیصلہ کے مطابق ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف نے میر شکیل کو 54 پلاٹ دئیے۔ احتساب عدالت نے میر شکیل الرحمن کے جسمانی ریمانڈ کا چار صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم کا پہلا ریمانڈ ہے جس میں اسکی گہرائی تک جانے کی ضرورت ہے۔ چئیرمین نیب مناسب مواد ہونے کی صورت میں ملزم کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرسکتا ہے۔ عدالت نے ملزم کو سونے میں معاونت والی مشین کی فراہمی کی درخواست پر نیب قانون کے مطابق عملدرآمد کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے ادویات، گھر کا کھانا اور میڈیکل کرانے کی ملزم کی درخواست کا بھی نیب کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ دریں اثناء نیب کی جانب سے میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کے حوالے سے ٹی وی شو کرنے پر پیمرا نے شاہزیب خانزادہ کو شوکاز نوٹس بھیج دیا ہے۔ اینکر شاہزیب خانزادہ نے اپنے شو کے دوران کہا کہ میرشکیل الرحمن پر نیب کی جانب سے دباؤ تھا کہ وہ نیب پر سوال نہ اٹھائیں، سوال اٹھانے پر انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس پروگرام میں کیے گئے اس دعوے پر پیمرا نے شاہزیب خانزادہ کو شوکاز نوٹس جاری کردیا ہے۔ سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ عمران خان نے میر شکیل الرحمن کو گرفتار کرواکر تمام حدیں پار کرلی ہیں۔ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز نے مطالبہ کیا ہے کہ میر شکیل الرحمن کو رہا کیا جائے۔ گرفتاری ایسے وقت ہوئی جب میڈیا کی آزادی پہلے ہی دباؤ میں ہے۔ نیب شفاف اور غیرجانبدار انکوائری کو یقینی بنائے۔ امریکی صحافی تنظیم ’’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ‘‘ نے میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ سی پی جے ایشیا پروگرام کوآرڈینیٹر نے کہا ہے کہ نیب میر شکیل الرحمن کو فوری رہا کرے۔ لیؤن سیکر نے کہا کہ نیب میر شکیل الرحمن کیخلاف بنائے گئے کیس ختم کرے۔ گرفتاری آزادی صحافت کے حکومتی دعووں کی ہنسی اڑانے کے مترادف ہے۔ رپورٹرز آؤٹ بارڈرز نے میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا کوئی جواز نہیں۔ گرفتاری جنگ گروپ کے صحافیوں کو ہراساں کرنے کا اقدام ہے۔

ای پیپر-دی نیشن