ناموس قلم
دونوں ہی بیہودہ تھے ۔خلیل الرحمان قمر اور ماروی سرمد۔نعرہ بھی واہیات تھا،اتنا کہ میں اسے نقل کرنے سے بھی گریز کررہا ہوں۔پھر فضول مباحث کا ایک طولانی سلسلہ شروع ہوگیا۔ہر ہماشمادانشور ،مفتی اور عالم بن گیا۔جلوس نکلے ،جوتے چلے اور میڈیا کے کچھ لوگوں کی ریٹنگ بڑھی ،مگر معاشرے کے سنجیدہ لوگوں کی توقیر کے پیمانوں سے کھلواڑکرکے ۔اس موضوع پر اتناکچھ لکھا گیا او رلکھا جارہا ہے کہ اب اس پر مزید لکھنا وقت اور الفاظ کاضیاع ہے۔معاشرتی اقدار کو بدلنے یا بدلانے میں وقت لگتا ہے۔یہ ایک دم سے نہیں بدلتیں جب تک معاشرہ اسے قبول نہ کرے اسی دوران امان اللہ کی وفات کی خبرآگئی۔کنگ آف کامیڈی بے سروسامانی کے عالم میں گوجرانوالہ کے نواحی گائوں چک رام داس سے نکلا اور محنت شاقہ کی بھٹی سے نکل کرکامیڈی کے میدان کا دمکتاستارہ بنا،بہت سی دولت کمائی ۔شہرت تو اتنی کہ سمیٹی نہ جائے۔امان اللہ پر قبل ازیں انہی صفحات پر کالم لکھ چکا ہوں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا تھا مگر ایک ہائوسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ نے جس طرح ان کو اپنی سوسائٹی میں دفن ہونے سے روکنے کی کوشش کی اور یہ موقف کہ ہم کسی میراثی کو اپنے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دینگے ،ایک مخصوص ذہن کی عکاسی کرتا ہے،حالانکہ انکی بیٹی کا گھر بھی اسی سوسائٹی میں تھا۔ یہاں تک لکھاتھا کہ گوجرانوالہ سے ایک اور بڑے فنکار اور دوست سہیل احمد سے فون پربات ہوئی میں نے اس معاملے کی تصدیق چاہی تو معاملہ ہی دیگر نکلا۔دراصل ہوایوں کہ اس نجی سوسائٹی کے قبرستان میں تمام قبریں ایک ترتیب سے موجود ہیں ۔کسی کو یہ ترتیب بدلنے کی اجازت نہیں مگر جب امان اللہ کے لواحقین نے اس ترتیب سے ہٹ کر سٹرک کے قریبی کنارے پرپر قبر کھودنا چاہی تو سوسائٹی کی انتظامیہ نے یہ کہہ کرروک دیا کہ جس ترتیب سے پہلے سے قبریں موجود ہیںاس کی خلاف ورزی نہ کریں ۔امان اللہ کے لواحقین اس نیت سے سٹرک کے قریب قبربنانا چاہتے تھے کہ بعد میں پختہ تعمیر کرلیں گے ۔جس پر لوگوں کو اعتراض ہوا۔اسی اثناء میں فیاض الحسن چوہان نے اپنے "جوہر" دکھائے اور تمام بائی لاء ز کی خلاف ورزی کی اجازت دے دی ۔ سہیل احمد نے بتایا کہ آج تک پاکستان کے کسی شہر یا قصبہ میں بھانڈ مراثیوں کو دفنانے سے انکار نہیں کیاگیا اور نہ ہی کسی نجی سوسائیٹی میں بس وہاں پر موجودکسی ستم ظریف نے ویڈیوبنائی اور سوشل میڈیا پر اپنے مکروہ الفاظ لکھ کرلاکھوں لوگوں کی دل آزاری کی اورامان اللہ کا مردہ خراب کیا ان دونوں موضوعات پر آپ نے بہت پڑھ لیا ہوگا۔اب ذکر ایک ادبی محفل کا ہوجائے کہ ادب ہمارے معاشرے کو تحقیق تخلیق ،برداشت اور میانہ روی کی دولت عطاکرتا ہے۔1970ء کی دہائی کے آغاز میں گوجرانوالہ میں کئی ایک ادبی اور ثقافتی تنظیمیںبڑے اہتمام سے پروگرام پیش کرتیں ۔ان میں شعروادب کے حوالے سے "بزم ناموس قلم"نے بڑا نام کمایا ۔ریل بازار میں شیش محل ہوٹل کے ساتھ یونائیٹڈبینک کی ایک چار منزلہ عمارت تھی ۔چوتھی منزل پر اس تنظیم کا دفتر تھا۔کیسے کیسے نگینے لوگ تھے، شعروادب کی کیاکیا محفلیں جمتیں،سب دوست اس ہفتہ وار اجلاس میں کھل کر اظہار کرتے، گویا ایک گلستان آباد تھا۔جہاں تک مجھے یاد پڑھتا ہے "بزم ناموس قلم "کی بنیاد رح رفاقت ،تسلیم رضا، مشتاق صاحب مرحوم اور صباح الدین قریشی نے اپنے خون جگر اور فکرتازہ سے رکھی ۔ہر ہفتے تمام دوستوں سے رابطہ رکھا انہیں اس ادبی پلیٹ فارم سے نظم ونثراور افسانہ وتنقید کے اظہار کا موقع فراہم کرنا اگرچہ مشکل کام تھامگر 70کی دہائی تو گویا شہر میں "بزم ناموس قلم" کے نام رہی ۔بڑے جواہر پارے تخلیق کئے اسکے ارکان نے ۔کیاخوب غزل کہتے تھے مشتاق صاحب اور کیسے طبع زاد افسانے تخلیق کرتے تھے جاوید اقبال ۔کیا کوثر وتسنیم میں دھلی زبان استعمال کرتے تھے رح رفاقت،احسا ن بخاری اور اقبال نجمی آج بھی وہ پچاس سال پرانا منظر یاد آتا ہے تو دل کبھی خوش اور کبھی اداس ہوجاتا ہے۔کبھی احسان دانش غزل سرا ہیں تو کبھی مشیر کاظمی ، اورکہیں طفیل ہوشیار پوری لہک لہک کر اپنا کلام سنا رہے ہیں تو کہیں ارشد میراپنے پنجابی نثر سے محظوظ کررہے ہیں۔جان کاشمیری اور امین خیال بھی وہیں نظم ونثر میں اپنی جولانیاں دیکھارہے ہیں۔ناموس قلم کے پہلے صدر پروفیسرمحمد احمد شادصدارتی امور میںکسی بد نظمی کو برداشت نہ کرتے شہر کے لوگومبارک ہوکہ اب"بزم ناموس قلم" کا احیاء ہوا چاہتا ہے ۔گذشتہ دنوں اسکے بانی تسلیم رضا نے ایک مقامی ریسٹورنٹ میں بیس کے لگ بھگ پرانے دوستوں کو جن میں بشیر عابد،امجد محسن ،عاطف کمال رانا ،عنصر علی عنصر،شبیر شاہد اور یاسر مشتاق سمیت دیگرشعراء اورادیبوںکا اجلاس منعقد کرکے اسے پچاس سال بعد دوبارہ زندگی بخشنے کا عندیہ دیا ۔ مگر ان پچاس سالوں میں وہ شیش محل ہوٹل اور "بہترین ریسٹورنٹ"سمیت ٹی روم اور کپورتھلہ طعام گاہ تمام ہوئی ۔شعر وادب کی کیمسٹری بدل گئی ۔فنکار ایسے مایوس ہوئے کہ کسی کونے کھدرے میں چھپ گئے۔کئی ایک شاعر وادیب کی بجائے بھانڈ بن گئے ۔مزاحیہ شاعری کے نام پر ادب اعلی کا خون بہایا گیا۔دولت اور میڈیا کی چمک نے بڑے بڑوں سے فن ہی چھین لیا۔ انکے شعروں سے معنی ہی غائب ہوگئے۔ اس میدان میں کوئی ویرانی سی ویرانی آئی۔ادب کی زمین بانجھ ہونے لگ گئی ۔ایسے میں "بزم ناموس قلم"کا احیاب ہوا کا تازہ جونکا ہوگا اور وہ قدریں اور محفلیں بھی دیکھنے کو ملیں گی ۔جنہیں دیکھنے کو نصف صدی گذرچکی ہے۔
ایک نوٹ:۔عدلیہ کے ڈویثرنل ہیڈکواٹر گوجرانوالہ میں کئی عدالتوں میںڈرگ کورٹ سمیت ابھی تک ججز تعینات نہیں ہوسکے ۔لوگ جیلوں میں اپنے مقدر کو رورہے ہیں۔شائدان کی آہ آسمان ہلا دے۔