مہنگائی سے نمٹنے کے لیے حکومتی پلان؟؟
عمران خان نے قوم کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ایک بار پھر اس عندیہ کااظہار کیا ہے کہ وہ جلد ہی مہنگائی پر قابو پا لیں گے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ کھلاڑی نہ ہوتا تو ڈیڑھ سال میں ہاتھ کھڑے کر دیتا۔ اب سوال تو یہ ہے کہ کیا عمران خان وہ تمام وعدے پورے کر پائیں گے کہ جن کا انہوں نے وعدہ کیا ہے۔ کیا وہ اُن مافیاز تک ہاتھ ڈال پائیں گے جو مہنگائی کے ذمے دارہیں اور موجودہ حکومت کے پاس مہنگائی ختم کرنے اور غربت سے نمٹنے کے لیے کیا لائحہ عمل ہے۔ مغرب میں ایک عرصے تک ''Prebish singer Theses''کے نظریات نے جگہ بنائے رکھی جس سے Dependancy Theory کو فروغ ملا اس نظریے کے خالق Prebish اور H.singer کا خیال تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کی تجارت میں فائدہ ہمیشہ ترقی یافتہ ممالک کو ہی ہوتا ہے لہٰذا انہوں نے خود کفالت کے نظریہ کو فروغ دیا۔ اُس دور میں اس سے ملتی جلتی لہر پاکستان میں بھی اُٹھی ایوب خان کی ''Deregulated Market economy'' نے ’’خود کفالت نظریہ‘‘ کی بجائے دولت کو بائیس خاندانوں میں منتقل کردیا۔ جس کا عام پاکستانی شہری کو فائدہ نہیں پہنچا۔ بھٹو وزیراعظم بنے تو انہوں نے خود کفالت کے ساتھ ساتھ بائیس خاندانوں کی اجارہ داری توڑنے وسائل کی منصفانہ تقسیم کی خاطر زرعی صنعتی اصلاحات بھی مختلف شعبوں میں متعارفکروائیں لیکن ان کیاثرات گہرے ہونے کے باوجود بھی یہ اصلاحات غریب کو غربت کے چنگل سے نہ نکال سکیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے نعروں اوروعدوں میں مہنگائی پر قابو اور غربت کے خاتمے جیسے مسائل کے بارہا خاتمے کا ذکر کیا لیکن ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ’’غربت کیسے دور ہو گی‘‘ جیسی فکر اور سوچ نے کئی کروٹیں بدلیں ۔ ملک میں اقتدار سنبھالنے والے ہر حکمران نے ہمیشہ یہ تاثر دیا کہ یہ مسئلہ گزشتہ حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے حاصل نہیں ہوا ، جنہیں اعلیٰ تدبر سے جلد ہی حل کر لیا جائے گا۔ لیکن چند ہی دنوں میں یہ احساس ہو جاتا ہے کہ یہ مسئلہ اتنا سیدھا نہیں ہے کہ جسے حل کر لیا جائے۔ عمران خان نے معیشت کے ڈھانچے کو مختلف حکمت عملیوں سے مصنوعی تنفس دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کے نتائج تلاش کرنا مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ کرپشن اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے بڑے بڑے دعوے کئے گئے کرپشن کی روک تھام کے لیے لوٹی ہوئی رقم کی واپسی اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے Anti smuggling and border management strategy ایک اندازے کے مطابق سات بلین ڈالرز ہر سال اسمگلنگ کی نذر ہو جاتے ہیں۔ تاہم اقتصادی بحران سے نکلنے کے لئے ہمیں اقتصادی ترقی اور ٹیکس کلچر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ محصولات اور حکومتی اخراجات سے قطع نظر اگر پیداواری شعبہ بحران کا شکار ہو جائے تو محصولات کے ذریعہ اقتصادی تقری کی بحالی کی تمام کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ پیداواری شعبے کی بین الاقوامی منڈی سے مسابقت برقرار رکھیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے زراعت کے شرح نمو کا انحصار بہت حد تک زرعی شعبے کی کارکردگی پر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے بارشوں اور ناقص منصوبہ بندی سے جو حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اُن سے آنکھیں چرانے کی بجائے اس شعبہ کو فعال بنانے کی طرف توجہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ انڈسٹری کو بہتر بنانے کے لئے بجلی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ بنیادی خام مال فراہم کرنے والی صنعتوں کے ٹیکس اگر کم ہوں گے تو وہ مصنوعات کے نرخ بھی کم کر سکیں گی Value aded کی بجائے خام مال پیدا کرنے والی صفت کو تحفظ دینا ملکی معیشت کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ انسانی وسائل کی ترقی، بنیادی ضروریات کی فراہمی اور ریاستی اداروں کی اصلاح کے لئے محصولات اور حکومت کی آمدنی میں تب ہی اضافہ ہوتا ہے جب حقیقت مستحکم بنیادوں پر ترقی کر رہی ہو۔ محض ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے سے ہاتھ کچھ نہیں آتا الٹا نقصان ہوتا ہے۔