پالیسی میں بڑی تبدیلی، حکومت کی گیس کمپنیوں کو قیمتوں میں کمی، ریونیو ہدف گھٹانے کی ہدایت
اسلام آباد(آن لائن)پالیسی میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے حکومت نے گیس کی 2 کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائیریکٹرز اور منیجنگ ڈائریکٹرز کو باضابطہ طور پر صارفین کو کم قیمتوں کے ذریعے ریلیف پہنچانے کے لیے ریونیو کے بڑے حصے کو چھوڑنے کی ہدایت کردی۔ایک مراسلے میں پیٹرولیم ڈویژن نے سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ(ایس ایس جی سی ایل) سوئی نادرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے چیئرپرسنز کو صارفین کے لیے قیمتوں میں ریونیو ضروریات کو کم کرنے کے لیے اپنے بورڈز سے منظور لینے کی ہدایت کردی۔رپورٹ کے مطابق مراسلے میں کمپنیوں کو اپنے اَن اکاؤنٹڈ فار گیس (یو ایف جی) کے بینچ مارک اوگرا کے منظور شدہ 6.3 فیصد سے کم کر کے 4 فیصد کرنے کی ہدیات کردی جس سے گیس کمپنیوں کے ریونیو میں ایک سال میں 10 ارب روپے کی کمی آجائے گی۔مزید یہ کہ گیس کمپنیوں سے ریٹ ا?ف ریٹرن اوگرا کے منظور شدہ 17 اور 17.5 فیصد سے کم کر کے 15 فیصد کرنے کا بھی کہا گیا جس سے ان کے ریونیو میں ایک سال کے عرصے میں 5ارب روپے کی کمی آئے گی۔اس کے علاوہ دی گئی ہدایات میں اثاثوں پر فرسودگی کی شرح ایک فیصد گھٹانے کا بھی مطالبہ کیا گیا جس سے پڑنے والے مالی اثرات 5 ارب روپے کے برابر ہوں گے۔سب سے اہم یہ کہ دونوں گیس کمپنیوں کو مزید 5 ارب روپے کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے مجموعی ترسیلی اور تقسیمی لاگت کو کم کر کے معقول بنانے کی بھی ہدایت کی گئی۔سیکریٹری پیٹرولیم اسد حیات الدین کا تحریر کردہ مراسلہ دونوں کمپنیوں کے بورڈز اور انتظامیہ کو بھجوادیا گیا جس میں کہا گیا کہ ’گیس کے صارفین کو ریلیف پہنچانے کے لیے قیمتوں میں کمی کے متعدد آپشنز‘ کا جائزہ لے کر ان عوامل کی نشاندہی کی گئی۔مراسلے میں یہ بھی کہا گیا کہ وزیراعظم آفس کی تجویز پر ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل اور اوگرا کے ساتھ ابتدائی مشاورتی اجلاس کیا گیا جس میں چاروں معاملات اور کمپنیوں کے مطلوبہ اقدام پر غور کیا گیا۔باخبر ذرائع نے بتایا کہ ریگولیٹر نے ان مشاورتی اجلاس میں واضح طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے مطالبات ملک کے موجودہ قوانین کے تحت زیر غور نہیں لائے جاسکتے کیوں کہ ٹیرف میں تمام بینچ مارک ریگولیٹری طریقہ کار کے ذریعے مقرر کیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ ریگولیٹری میکانزم کے تحت اس طرح کے مطالبات اجلاسوں اور مراسلوں پر پورے نہیں کیے جاسکتے کیوں کہ شدید صورتحال میں پالیسی رہنمائی ریگولیٹر کے لیے اس وقت قابلِ قبول بنتی ہے جب وفاقی کابینہ اس کی باقاعدہ منظوری دے۔