• news

کرونا پاکستان میں آنے کے ذمہ دار حکومتی ادارے، ائیرپورٹ کسٹمز، ایف آئی اے مافیا ہیں: سپریم کورٹ

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو بطور سی ای او پی آئی اے بحال کر تے ہوئے ارشد ملک ، پی آئی اے انتظامیہ اور یونین عہدیداروں کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔ عدالت نے پی آئی اے سے ارشد ملک کے دیے گئے ٹھیکوں کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔ چیف جسٹس پاکستان کا کہنا ہے کہ کرونا کے ملک میں آنے کے ذمہ دار حکومتی ادارے ہیں۔ کیا ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز ہے؟ حکومت نے خود کچھ کیا نہیں ہمیں کہہ دیا عدالتیں بند کر دو، سپریم کورٹ میں ایم ڈی پی آئی اے ایئرمارشل ارشد ملک محمود کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل خالد محمود خان نے 19فروری 2020 کا عدالتی حکم پڑھ کرکہا کہ عدالت کے سامنے کچھ باتیں رکھنا چاہتا ہوں، امریکی صدرکی اہلیہ نے جب پی آئی اے پرسفرکیا انہوں نے فلائٹ کو بہترین قرار دیا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا اس وقت پی آئی اے کا انتظام ایئرمارشل نور خان اور ایئرمارشل اصغرخان جیسے لوگوں کے ہاتھ میں تھا، اٹارنی جنرل نے کہاآج پی آئی اے چلانے کیلئے حکومت خسارہ برداشت کر رہی ہے، موجودہ ایم ڈی کو عہدے برقراررکھنے پر میری ذاتی کوئی دلچسپی نہیں تاہم ہم اس معاملے کو طول نہیں دیناچاہتے، چاہتا ہوں عدالت جلد از جلد اس پرفیصلہ کرے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا پائلٹ یونین اور پی آئی اے یونین سب کی کھینچا تانی سے پی آئی اے متاثر ہو رہا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا سابق چیف آف ایئراسٹاف کو یونین نے کمرے میں بندکر دیا تھا، جس پر سابق چیف آف ایئراسٹاف اپنی مددکیلئے دوستوں سے مدد لینی پڑی، اٹارنی جنرل نے کہا پی آئی اے کے 12چیف ایگزیگٹو9سالوں میں آچکے، اگر ادارے کا کنٹرول یونین کے ہاتھوں میں دیدیا جائے تو ادارہ تباہ ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا میں بہت سے اداروں کامشیر رہ چکا ہوں، ہم کیا کریں آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ جسٹس اعجازالحسن نے کہا ایک حکومت آتی ہے وہ 600لوگوں بھرتی کردیتی ہے، دوسری حکومت بھی اتنے لوگوں کو بھرتی کرتی ہے، اور پھرتیسری حکومت جب آتی ہے سب کونکال دیتی ہے۔ بعد میں سابقہ حکومت آ کر نکالے گئے ملازمین کوگزشتہ مراعات دے کر دوبارہ بحال کردیتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا ارشدملک نے کہا کہ میں عدالت کی احترام میں واپس چلاجاتا ہوں، وزیراعظم نے کہا کہ یہ افسر اگر واپس چلا گیا تو کوئی اور قابل افسر پی آئی ا ے میں دلچسپی نہیں رکھے گا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا عدالت پی آئی اے میں مستقل سربراہ چاہتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک شخص کوکراچی ایئرپورٹ پرتشددکا نشانہ بنایا گیا، کیا اٹارنی جنرل صاحب آپ نے ویڈیو دیکھی؟ ہر برا کام ایئرپورٹ پر جاری ہے۔ ایئرپورٹ پرکسٹم ایف آئی اے سمیت، تمام ادارے، مافیا ہیں، ایئرپورٹ پر اداروں کے لوگ عام عوام کے تضحیک کرتے ہیں۔ کوئی ایک اچھی چیز بتا دیں جو عوام کے حق میں کی گئی ہوکسی کوکوئی پرواہ ہی نہیں۔ کورونا وائرس باڈراور ایئرپورٹس کے ذریعے ملک میں آیا ہے اس وائرس کے تدارک کیلئے اداروں میں بیٹھے لوگوں نے کیا کیا ہے ؟کورونا وائرس پاکستان میں پیدا نہیں ہوا، ملک میں کرونا وائرس آتا رہا اس وقت کسی کو فرق نہیں پڑا، جا کر دیکھیں کتنے ابتر حالات ہیں، ہم صرف عدالتوں میں احتیاطی تدابیر ہی کر سکتے ہیں، عدالتیں کسی صورت بند نہیں کر سکتے، اٹارنی جنرل نے کہا حالت جنگ میں بھی عدالتیں بند نہیں ہوتیں، چیف جسٹس نے کہا پرانے وزیراعظم نے کتنا عرصہ پی آئی اے کا جہاز لندن میں کھڑا رکھا، کس کی اجازت سے پی آئی اے کا جہاز لندن ائیرپورٹ کھڑا رہا، جہاز کی پارکنگ کا پیسہ کس نے دیا، لندن میں جہاز کی پارکنگ مفت میں نہیں ملتی، پی آئی اے میں ذاتی استعمال کیلئے جہاز استعمال ہوتے ہیں، بڑے ظالم لوگ ہیں پورا جہاز لے کر چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں جس کو گلگت گھومنے کا شوق ہوتا ہے وہ پوری فیملی کو جہاز میں بیٹھا کر لے جاتا ہے، پی آئی اے سے کھلواڑ کرنیوالے آج بھی پی آئی اے میں کام کررہے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا اس لیے پی آئی اے کی یہ حالت ہے، جسٹس اعجا ز الاحسن نے کہا پی آئی اے میں پروفیشل لوگوں کو لایا جائے، پی آئی اے میں بھرتیوں کا اختیار مینجمنٹ کے پاس ہونا چاہیے، ۔ پی آئی اے کی بہتری سے متعلق سیاسی حکومتوں کے فیصلے نہ لینے سے یہ حال ہوا، چیف جسٹس نے کہا پی آئی اے کا مسئلہ توحل ہو جائیگا، ائیرپورٹ پر کسٹم اور سول ایوی ایشن کا کیا کریں، ائیرپورٹ پر جنہوں نے تشدد کیا وہ قابل شناخت ہیں، عدالت نے اپنے حکم نامے میں قرار دیا کہ جوچیزپی آئی اے کونیچے دکھیل رہی ہے وہ ہومن ریسورس ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ پی آئی اے منافع بخش ادارہ نہیں بن سکتا پی آئی اے جہازوں کے تناسب سے زیادہ لوگ کام کررہے ہیں، پی آئی میں سفار ش اوراقربا پروری پر بھرتی کی جاتی ہے، منیجمنٹ بتائیں کونسے کنٹریکٹ جاری رکھے اورکونسے کنڑیکٹ منسوخ کرے، عدالت نے انتظامیہ کو کام جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کر لی اور مزید سماعت 20 اپریل تک ملتوی کر دی۔

ای پیپر-دی نیشن