سراج الحق بازی لے گئے!!!!
جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اصغر بھائی کی دعوت پر انکی رہائش گاہ عشائیہ پر پہنچے تو وہ دروازے پر استقبال کے لیے موجود تھے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق اس دعوت کے مہمان خاص تھے۔ انیق احمد ہمارے ساتھ تھے جبکہ جماعت اسلامی کے فارن افیئرز کے سربراہ عبدالعزیز بھی گفتگو میں شامل تھے۔ امیر جماعت اسلامی سے ملاقات ہمیشہ اچھے ماحول میں ہوئی ہے ان کے پاس بیٹھیں تو وقت گذرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ روایتی سیاست دان نہیں ہیں، کوئی کاروباری مفاد نہیں، شہرت کا شوق نہیں نہ ہی کسی کو خوش کرنے نہ کسی کو ناراض کرنے کے لیے بات کرتے ہیں جو درست سمجھتے ہیں وہی بولتے ہیں۔ وہ سیاست کو حصول اقتدار کے بجائے عوام کی اصلاح اور ملکی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کا حصہ ہوں یا سڑکوں اور دھرنوں میں ہیں نظر آ رہے ہوں جماعت اسلامی کی طرف سے فلاحی کاموں کا سلسلہ نہیں رکتا۔ یہ وہ اہم کام ہے جو دیگر سیاسی جماعتوں میں کم نظر آتا ہے۔ سیاسی جماعتیں تو ہر وقت کسی نہ کسی کو ہدف بنائے نظر آتی ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں کا ہر قدم کسی کو خوش یا کسی کو کھینچنے کے لیے ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں بھی سیاسی جماعتیں پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہیں۔ہماری سیاسی بے حسی اور خود غرضی کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ دنیا کررونا وائرس سے تباہ ہو رہی ہے۔ لاک ڈاؤن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ کرونا وائرس پاکستان میں بھی داخل ہو چکا ہے تین سو سے زائد مریضوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ان حالات میں بھی سیاست دان ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وہ رویے ہیں جن کی وجہ سے عام آدمی اس نظام اور اسکا حصہ بننے والوں سے متنفر ہوتا ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے سیاسی اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی ایمانداری، شرافت اور نیک نیتی پر اعتبار کرنا بالکل مشکل نہیں ہے۔ سراج الحق جیسے وضعدار اور بااخلاق سیاست دان پاکستانی سیاست میں کم نظر آتے ہیں۔ ہماری سیاست میں تہذیب اور شائستگی کی کمی نظر آتی ہے لیکن اس دور پرفطن میں سراج الحق جیسے سیاست دان ہی ہیں جنہیں دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے نئی نسل میں یہ خوبیاں ضرور منتقل ہوں گی اور ملکی سیاست میں ایسے لوگ ضرور آئیں گے جو ملکی تعمیر کے لیے انتخابی عمل کا حصہ بنیں گے ایسے لوگ ضرور سیاست کا حصہ بنیں گے جن کا مقصد کاروبار کو وسعت دینا یا مال بنانا نہیں ہو گا بلکہ وہ قوم کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں گے۔ ہمیں ایسے ہی پارلیمینٹرینز کی ضرورت ہے۔ میدان سیاست میں ایسے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے جو قومی مسائل کو سیاسی مفاد پر ترجیح دیں ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو قومی بحران کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ کریں۔ سراج الحق ماضی میں بھی ایسے کئی کام کر چکے ہیں۔انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کرونا وائرس کے مسئلے پر جماعت اسلامی کی سیاسی سرگرمیوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کہنے لگے چودھری صاحب یہ کھانا تو بہانہ ہے اصل مقصد تو مل بیٹھ کر کچھ اچھا وقت گذارنا، بامقصد و بامعنی گفتگو کرنا ہے۔ انیق صاحب کی موجودگی میں وقت اور بھی اچھا گذر جاتا ہے۔ ہمارے حالات ایسے ہیں کہ اقتدار کی ذمہ داری نبھانے والوں کو تو بالکل آرام نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں کو معطل کر دیا ہے یہ عالمی وبا ہے۔ اس نے دنیا کو بند کر دیا ہے ہمیں ایک ذمہ دار پاکستانی کی حیثیت سے اپنا فرض نبھانا ہے۔ ہم نے ایک ورکشاپ شروع کی ہے، آگاہی مہم بھی شروع کریں گے۔ عوام کو باشعور بنانے اور کرونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ ہم نا صرف سیاسی جماعت کی سطح پر اپنا کردار ادا کریں گے بلکہ اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے کام کرنے والے تمام فلاحی اداروں، این جی اوز کی بھی معاونت کریں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی یہی پیغام دیتا ہوں کہ اس ممکنہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔ مریضوں اور لاشوں پر سیاست کا موقع تلاش کرنے کے بجائے اپنے لوگوں کو بیمار ہونے اور ان کی زندگی کو محفوظ بنانے میں حصہ ڈالیں۔ ہر وقت نفرت آمیز باتیں کرنا اور سیاسی مفادات کو ترجیح دینا مناسب نہیں اس وقت تو بات سیاست سے کہیں آگے کی ہے۔ یہ مسئلہ قیمتی انسانی جانوں کا ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
سراج الحق نے ملکی مفاد میں سیاسی سرگرمیاں معطل کرنے کا فیصلہ کر کے اور کرونا وائرس کے حملے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کر کے پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو جماعت اسلامی کی پیروی کرتے ہوئے کرونا وائرس سے مقابلہ کرنے اور عوام میں شعور پیدا کرنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔
حکومت خوش قسمت ہے کہ اس کی اپوزیشن میں سراج الحق جیسے تعمیری ذہن اور سوچ رکھنے والے سیاستدان موجود ہیں ایسے رویوں اور فیصلوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومتوں کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے ویسے تو چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی کرونا وائرس کے باعث وزارتِ قانون کی عدالتیں بند کرنے کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتیں تو حالت جنگ میں بھی بند نہیں ہوتیں اپنا کام کیا نہیں اور ہمیں کہتے ہیں عدالتیں بند کر دیں۔ کرونا وائرس بیرون ملک سے بذریعہ ائیرپورٹ آیا، یہ پی آئی اے اور حکومت کی نااہلی سے ہوا ہے۔ ان ریمارکس کے بعد حکومتی کارکردگی کا انداذہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے قابل عزت اور معزز جج جب یہ کہیں گے تو سمجھنا چاہیے کہ واقعی حکومتی سطح پر کرونا سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے خطرہ داخل ہو چکا ہے اس تباہی سے بچنے کے لیے بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ہمیں بہت بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔