جنوبی پنجاب ، ایک نہیں دو صوبے بنائے جائیں
احسان الحق
ihsan.nw@gmail.com
پاکستانی سیاست میں ’’لولی پاپ‘‘اور’’ ٹرک کی بتی ‘‘ کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا ہے۔ عام انتخابات قریب آتے ہی پاکستانی سیاست میں عوام سے لولی پاپ اورٹرک کی بتی جیسے کئی ایسے وعدے کئے جاتے ہیں جو کبھی بھی پورے نہیں ہوئے تاہم اگلے عام انتخابات میں بعض نئے وعدوں کو لولی پاپ کی حیثیت دے کر ایک بار پھر عوام کوٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے اوریہ ’’قومی کھیل ‘‘ پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان میں بڑی کامیابی سے کھیلا جا رہا ہے پاکستان کی 72سالہ تاریخ میں 2018ء کے عام انتخابات اس لحاظ سے منفردسمجھے جا رہے تھے کہ پہلی دفعہ پاکستانی سیاسی تاریخ میں دو پارٹی سسٹم اپنے انجام کو پہنچ رہا تھا اور22سالہ طویل جدوجہد کے بعد عمران خان کی جانب سے بنائی جانے والی نئی سیاسی جماعت تحریک انصا ف کو روایتی دوپارٹیوں مسلم لیگ اورپیپلز پارٹی کی بجائے پاکستانی عوام کی امنگوں کا ترجمان سمجھاجا رہا تھا اورتوقع ظاہرکی جا رہی تھی کہ عمران خان بحیثیت وزیر اعظم عوام سے کئے گئے تمام بڑے وعدے پورے کریں گے ۔ آپ سب کو یاد ہوگا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اورصوبہ محاذ کے سربراہ مخدوم خسرو بختیار کے درمیان عام انتخابات سے قبل ایک تحریری معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے پہلے 100روز کے دوران جنوبی پنجاب پر مشتمل نئے صوبے بارے عملی پیش رفت سامنے آئے گی لیکن اب کئی 100دن گزرنے کے بعد اس نئے صوبے کے بارے میں کوئی عملی پیش رفت سامنے آئی ہے جو جنوبی پنجاب میں سیکرٹریٹ کے قیام سے متعلق ہے جس سے جنوبی پنجاب کے عوام میں یقینا"اطمینان پایا جا رہا ہے اور توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ نئے صوبے کے قیام سے یہاں کے دہائیوں سے پرانے مسائل حل ہو سکیں گے اور جنوبی پنجاب کے عوام کو اپنے مسائل کے حل کیلئے سینکڑوں میل کا سفر نہیں کرنا پڑیگا ۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے جنوبی پنجاب پر مشتمل نئے صوبے کا سیکرٹریٹ دوشہروں ملتان اوربہالپورمیں قائم کرنے کے اعلان سے نہ صرف جنوبی پنجاب کے شہری دوحصوں میں تقسیم ہو گئے ہیں بلکہ اس تجویزکو ’’آدھا تیتر اورآدھا بٹیر ‘‘سمجھا جا رہا ہے جس کے باعث اس نئے مجوزہ صوبہ کے قیام میں بھی مزید تاخیر واقع ہو سکتی ہے ۔وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ جنوبی پنجاب کے تمام سیاستدانوں کو ہر قیمت پر ایک پیج پر لائیں تاکہ جنوبی پنجاب کے سیکرٹریٹ سے متعلق سیاستدانوں میں پائے جانے والے اختلافات ختم ہو سکیں - وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے نئے مجوزہ صوبہ جنوبی پنجاب کا سیکرٹریٹ دوشہروں ملتان اوربہاولپور میں بنائے جانے کے فیصلے کے باعث جنوبی پنجاب کے تمام بڑے سیاستدان جن میںشاہ محمود قریشی ، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ،مخدوم سید احمدمحمود،مخدوم خسرو بختیار،مخدوم شہاب الدین ،جاوید ہاشمی ،سردار ذوالفقار کھوسہ ،اویس احمد لغاری ،ڈیرہ نواب کا عباسی خاندان،طارق بشیر چیمہ ودیگر شامل ہیں یہ سب دوحصوں میں تقسیم ہو گئے ہیں جس سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان سیاستدانوں کے سیکرٹریٹ قیام کے بارے پائے جانے والے اختلافات کو بنیادبنا کر نئے صوبہ کا قیام ایک بار پھر التوا ء میں ڈال دیا جائے گا اورآئندہ عام انتخابات میں نئے صوبہ کا قیام ایک بار پھر لولی پاپ کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ اس لئے وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ نئے صوبے کے قیام میں حائل تمام رکاوٹیں فوری طور پر ختم کریں تاکہ جنوبی پنجاب کے عوام میں ان پر پائے جانے والے اعتماد میں اضافہ ہو سکے -یاد رہے کہ 2 اپریل 1970ء کو جب ون یونٹ ختم کیا گیا تو بہاولپور کو اس کے پرانے اسٹیٹس پر بحال کرنے کی بجائے صوبہ پنجاب میں شامل کر لیا گیا تھاجب کہ قبل ازیں بہاولپور ایک اسٹیٹ کی حیثیت سے کام کررہا تھا اس لئے جنوبی پنجاب کے بعض سیاستدانوں کا خیال ہے کہ جنوبی پنجاب پر مشتمل ایک صوبے کی بجائے دو صوبے بنائے جائیں جن میں سے ایک صوبہ ملتان اور ڈیرہ غازی خاں ڈویژن پر مشتمل ہو جب کہ دوسرا بہاولپور ڈویژن پر مشتمل ہوجس سے جنوبی پنجاب کے عوام کے دو نوں مطالبے پورے ہو سکیں گے جب کہ توقع ہے کہ ایک کی بجائے دو صوبوں کے قیام سے عوام کے مسائل بھی کافی حد تک کم ہو سکیں گے -نئے صوبے کے قیام کے بارے میں پچھلے چند روز سے مسلم لیگ ن کی طرف سے کوئی حوصلہ افزا اعلانات سامنے نہیں آرہے اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے چند روز قبل چولستان کے دورے کے موقع پر ان کی طرف سے جنوبی پنجاب پر مشتمل نئے صوبے کے قیام کے بارے میں بیانات کوئی حوصلہ افزا نہیں ہیں جس سے پنجاب اسمبلی میں نئے صوبے کے قیام بارے میں قرار داد کو مسلم لیگ ن کی حمایت حاصل ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا -
آپ سب کے علم میں ہوگا کہ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں نئے صوبہ کے قیام بارے کبھی بھی ایک پیج پر نظر نہیں آئیں جیسا کہ آج کل مسلم لیگ( ن) جن کی پنجاب اسمبلی میں بڑی واضح اکثریت ہے وہ فی الحال نئے صوبہ کے قیام میں دلچسپی نہیں لے رہی اورمسلم لیگ ن کی حمایت کے بغیر پنجاب اسمبلی سے کبھی بھی دو تہائی اکثریت سے نئے صوبہ کا بل منظور نہیں ہوسکتا اس لئے آئندہ کچھ عرصہ کے دوران نئے صوبے کا قیام بظاہرنہیں آرہا اورخدشہ ظاہر کیا جارہا ہے نئے صوبہ کے قیام کے بارے میں جب بھی کسی پیش رفت کا آغاز ہوگا پنجاب اسمبلی میں واضح حیثیت رکھنے والی کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت اس بل کی حمایت سے انکار کر دے گی اورعوام کو تادیر ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگا رہنا پڑے گا ۔لیکن کیا عوام کبھی اس لال بتی کو چھو بھی سکیں گے یا نہیں اس کا فیصلہ شائد آئندہ کئی برسوں تک نہیں ہو سکے گا ۔
پنجاب میں آمدہ بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں مسلم لیگ ق دیگر پارٹیوں کی نسبت زیادہ متحرک دکھائی دے رہی ہے اور مختلف سیاسی رہنماؤوں کو مسلم لیگ ق کے صوبائی صدر و سپیکر پنجاب اسمبلی اپنی جماعت میں شامل کرا رہے ہیں اور اطلاعات کے مطابق ضلع رحیم یار خان کے چند ’’نامور‘‘ سیاستدان جو پچھلے کافی عرصے سے کسی ’’پلیٹ فارم‘‘ کی تلاش میں تھے آئندہ چند روز کے دوران مسلم لیگ ق میں شمولیت کا اعلان کرنے والے ہیں جس سے ضلع میں یقینا ایک نئی سیاسی بحث کا آغاز ہو جائے گا۔مسلم لیگ ق میں شمولیت کرنے والے ضلع کی سیاسی فضا پر کس حد تک اثر انداز ہو سکیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ پی ٹی آئی کے لئے ان بلدیاتی انتخابات میں سیاسی مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں’پنجاب میں ہونے والے آئندہ بلدیاتی انتخابات بارے نئی صف بندیاں جس تیزی سے ضلع رحیم یارخاں میں دیکھنے میں آرہی ہیں شاید اس کی مثال پورے پنجاب میں نہ مل سکے -یہاں کے سیاستدانوں نے اپنے ووٹرز کی غمی خوشی میں لازمی شرکت کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی اپنی بھرپور کمپین شروع کررکھی ہے اور آئے روز بعض سیاستدان اپنے آپ کو میئر اور چیئرمین تحصیل کونسل کا امیدوار ڈکلیئر کر کے اپنے حمایتیوں کے اپنے حق میں بیان سوشل میڈیا کی زینت بنارہے ہیں ۔آئندہ بلدیاتی انتخابات میں حکمران پی ٹی آئی کو اپنے اندرونی اختلافات کے باعث مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ حکومتی ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض ہونے والا کوئی بھی گروپ اپوزیشن سے مل کر اپنی جماعت پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دے سکتا ہے - ضلع رحیم یارخاں میں ہونے والے آئندہ بلدیاتی انتخابات میں پی پی پی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم سید احمد محمود کا کرداربڑا اہم ہو سکتا ہے کیونکہ اندرونی اختلافات کے باعث بعض سیاسی گروپوں کو ان کی سرپرستی حاصل ہو سکتی ہے جو ضلع کے آئندہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں ۔