• news
  • image

شہباز شریف کے لیے پیغام!!!!!!

میاں نواز شریف کے برارد اصغر میاں شہباز شریف کی کرونا وائرس کی وجہ سے ہنگامی صورتحال میں انگلینڈ سے وطن واپسی خوش آئند ہے۔ ان کا یہ عمل قابل تعریف ہے۔ انہوں نے بڑے دل اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشکل وقت میں اپنے لوگوں کے ساتھ وقت گذارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میاں شہباز شریف کے س فیصلے سے ان کے ووٹرز، پرستاروں اور مداحوں کو یقیناً خوشی ہوئی ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں موجود سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والوں کے لیے بھی اچھا پیغام ہے کہ سیاست دانوں کو مشکل وقے میں اپنی عوام کے درمیان اور ان کے ساتھ ہی کھڑے ہونا چاہیے۔ میان شہباز شریف کی واپسی سے ان کی جماعت بھی متحرک ہو گی۔ ان کی جماعت کے کچھ غیر متحرک افراد کو بھی حرکت میں آنے کا موقع ملے گا۔ میاں شہباز شریف کی واپسی کا کسی کو یا انہیں سیاسی فائدہ یا نقصان ہوتا ہے یہ وقت ایسی باتوں یا ایسی بحث میں الجھنے کا نہیں ہے۔ وہ واپس آئے ہیں اپنی عوام کے درد میں واپس آئے ہیں انکا یہ جذبہ قابل تعریف ہے اب انہیں آگے بڑھ کر ملک و قوم کو درپیش موجودہ دور کے سب سے بڑے خطرے کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ وہ قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ قائد حزب اختلاف ہیں نہیں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرینز کو متحرک بنانے کے لیے مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔ چند سال قبل ڈینگی کی وجہ سے مشکل وقت میں انہوں نے صوبے کے وزیر اعلیٰ کے طور پر بہترین خدمات انجام دی تھیں۔ اب وہ حکومت میں تو نہیں ہیں ویسے اختیارات تو نہیں رکھتے لیکن ان کے پاس انتظامی معاملات میں تجربہ قوم کی امانت ہے۔ اس مشکل وقت میں قوم کو وائرس کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے انہیں فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس مشکل وقت میں کوئی تحریک انصاف، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی یا جمعیت علمائے اسلام نہیں ہے سب پاکستانی ہیں اور سب کو اس عالمی وبا سے خطرہ ہے اس وقت تمام کام مشورے اور اقدامات صرف اور صرف ایک پاکستانی کی حیثیت سے دیئے جانے چاہئیں۔ شہباز شریف سمیت کسی بھی سیاست دان کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ کسی بھی مثبت عمل سے عمران خان یا تحریک انصاف کو فائدہ ہو گا اس وقت ہر عمل پاکستان اور سینکڑوں قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے ہو گا۔
کرونا وائرس کے مسئلے پر مسلم لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کو چھوڑ کر اس عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ میاں شہباز شریف وطن واپس آئے ہیں تو بلاول بھٹو کی طرح انہیں بھی حکومت پر تنقید نہ کرنے کا اعلان کرنا چاہیے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ سیاسی بیان بازی سے ناصرف ماحول خراب ہونے کا اندیشہ ہے بلکہ منفی بیانات سے عوام میں بھی مایوسی پھیلتی ہے۔ میاں شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ اپنی جماعت کے ان تمام افراد کو ہدایات جاری کریں کہ غلطیوں کی نشاندہی کریں اصلاح کے لیے کام کریں۔ اس سارے عمل میں حکومت پر اپوزیشن کا حقیقی دباؤ بھی برقرار رکھیں تاکہ وزراء کو یہ خوف ضرور رہے کہ اگر انہوں نے کوتاہی کا مظاہرہ کیا تو ایک متحرک اور باخبر حزب اختلاف انہیں معاف نہیں کرے گی۔ میاں شہباز شریف کی موجودگی میں یہ کام ہو سکتا ہے۔ ان کی طرف سے حکومت پر حزب اختلاف کا دباؤ رہنے سے کرونا کے خلاف بہتر اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ اس معاملے میں وزیراعظم عمران خان کو بھی مختلف صوبوں میں وزرائے اعلیٰ کے اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی تعریف پر کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی کا عذر نہیں بنانا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو اور وہ کسی بھی صوبے کا وزیر اعلیٰ ہو اچھے کام سے ملک و قوم کا فائدہ ہوتا ہے اور کرونا کے خلاف اچھا کام کرنے پر وزیراعظم کو کھلے دل سے تعریف کرنی چاہیے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا ہے دونوں رہنماؤں نے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی یکجہتی اور کل جماعتی کانفرنس بلانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ ان کے علاوہ چودھری پرویز الٰہی، مولانا فضل الرحمان، سردار اختر مینگل نے بھی اے پی سی کی حمایت کی ہے۔ سندھ کے بعد پنجاب میں بھی چودہ روز کے لیے لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے۔ سینیٹر سعید غنی کا ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے دعا ہے کہ وہ جلد اور تیزی سے صحت یاب ہوں پیپلز پارٹی میں وہ اچھی گفتگو کرنے اور تحمل مزاجی سے بات کرنے والوں میں ایک نمایاں شخصیت ہیں کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں وہ اگلی صفوں میں نظر آ رہے تھے۔ اب وہ قرنطینہ میں ہیں اور گھر سے ہی تمام کام کریں گے۔ سندھ حکومت کی طرف سے مالی اعتبار سے کمزور افراد کے لیے کیے گئے فیصلے بھی حوصلہ افزا ہیں۔ حکومت نے لاک ڈاون کے دوران کسی کی بھی ملازمت ختم نہ کرنے اور تنخواہ نہ کاٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی آئی اے کے پائلٹس نے بھی تین روز کی تنخواہ کرونا فنڈ میں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
پنجاب میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ بھی خوش آئند ہے۔ انہی صفحات پر کئی روز قبل احتیاط زندگی کے عنوان سے لکھے گئے سائرن کا مقصد ہی عوام کو بتانا تھا کہ کرونا وائرس سے بچاو کا واحد ذریعہ احتیاط ہے اب ملک بھر میں اس کی گونج ہے بدقسمتی ہے کہ حکومتی اقدامات کے باوجود بھی عوام کی طرف سے احتیاطی تدابیر پر عمل دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ عوام کے لیے ضروری ہے کہ گھروں میں رہیں۔ ضروری میل جول سے بھی گریز کریں چند روز کی دوری سے زندگی رک نہیں جائے گی یہی دوری صحت مند زندگی کا راستہ بنائے گی۔ یہی احتیاط ہمیں معمول کی زندگی کی طرف واپس لائے گی۔ خدارا گھر میں رکیں، احتیاط کریں اپنے لیے اپنے خاندان اور ان کے بہتر مستقبل کے لیے گھروں میں رکے رہیں۔ حکومت اپنا کام کرے اور عوام ذمہ داری کا مظاہرہ کرے تو کورونا کے حملوں سے بچ کر ہم جلد دوبارہ معمول کی زندگی گذارنے کے قابل ہو جائیں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن